دادی !– ارم بیٹا ہماری ایمن ماشاءاللہ دس سال کی ہوگئی ہے اس سال ہم ضرور اسے روزے رکھوائیں گے پچھلے سال اس نے ستائیسواں روزہ رکھا تھا اب کے اخری عشرے کے روزے رکھوائیں گے اسے، ان شاءاللہ —-
ارم !– امی پچھلے سال بھی گرمی کی وجہ سے اسکی حالت خراب ہوگئی تھی وہ کہاں رکھ سکے گی روزے ! اور ویسے بھی ابھی وہ چھوٹی ہے بارہ سال کی ہوگی تو خود ہی رکھے گی،
زبیدہ !- (دادی) بیٹا ہم سارے روزے اسے نہیں رکھوائیں گے اخری عشرے کی طاق راتوں کے روزے رکھے گی تو اگلے سال پورے روزے روزے بھی رکھ سکے گی، اس کی عادت پختہ ہوجائیگی طاق راتوں کی اہمیت بھی معلوم ہوجائیگی اس طرح اس کی تربیت بھی ساتھ ساتھ ہوتی جائے گی ان شاءاللہ—
بیشک ابھی اس پر روزے رکھنا فرض نہیں ،لیکن ہمیں اسکی عادت بنانے کے لئے ابھی سےکوشش کرنی چاہیے۔
ارم( ساس سے ) چلیں صحیح ہے دیکھتے ہیں۔
زبیدہ کو اپنے پرانے پڑوسیوں کی بات یاد اگئی _انکے جوان بچے روزہ نہیں رکھتے تھے وہ خاتون خود بھی کبھی کبھار روزہ رکھتی، کہتی کہ بچے اپنی پڑھائی میں مصروف ہوتے ہیں روزے کیسے رکھیں انکے ابا اپنی کاروباری مصروفیت کی وجہ نہیں رکھتے- زبیدہ کو اس خاتون کی بات سنکر بہت افسوس ہوا۔
یہ ماہ رمضان تو امت مسلمہ کے لئے انعام ہے اس کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے،
رمضان المبارک تربیت نفس کا مہینہ ہےاللہ کو ہمارے بھوکے پیاسے رہنے سے غرض نہیں بلکہ یہ ماہ مبارک وصول برکات و انعامات کا ذریعہ ہے، ماں باپ ہمیشہ اولاد کی بھلائی کے خواہ ہوتے ہیں پھر وہ اس عظیم بھلائی سے انہیں کیوں محروم رکھ رہے ہیں، بیشک سات آٹھ سال کے بچے پر روزہ فرض نہیں ہے لیکن ان میں عادت ڈالنے کے لئے اس عمر میں ایک دو روزے رکھوائے جائیں ساتھ ساتھ انہیں روزے کے اصل مقاصد سے بھی روشناس کرایا جائے تو یقینا وہ اگے چل کر رمضان المبارک سے فیضیاب ہوتے کی صلاحیت رکھیں گے، ایک خاتون نے بتایا کہ میں نے بچپن سے گھر کے تمام افراد کو صوم صلوات کا پابند دیکھاتھا، شادی کے بعد سسرال پہنچی تو وہاں مجھے اس چیز کی کمی محسوس ہوئی ماہ رمضان میں باقاعدگی سے دوپہر کا کھانا تیار کیا جاتا اس کے شوہر دیور وغیرہ کوئی روزہ نہ رکھتا اسے بہت رنج ہوا اس نے جب شوہر کو اس طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی تو اس نے صاف انکار کیا کہ میں روزہ نہیں رکھ سکتا بھوک کی وجہ سے طبعیت بگڑ جاتی ہے، لیکن میں نے ہمت نہ ہاری شوہر کو مثبت طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی، کہ اب ہمارا ہر عمل بچوں کو راہ دکھائے گا روزہ تو ہے ہی روح اور جسم کی صحت کا ضامن، اس طرح میرے شوہر نے ماہ رمضان میں دو تین روزے رکھنے کی ابتداء کی چند سالوں میں اللہ تعالٰی نے انہیں ماہ رمضان میں پورے روزے رکھنے بلکہ عبادت کرنے کی توفیق بھی عطا کی _
ان خاتون کی بات بالکل درست ہے ہماری اماں (اللہ رب العزت انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ) کا ماہ رمضان میں طریقہ بہت عمدہ تھا وہ بچپن سے ہی ہم سب بہن بھائیوں کو سحری میں ضرور اٹھا دیتی چاہے اس وقت ہماری عمریں روزہ رکھنے جتنی نہ تھی جب ہم بچے گھر میں سب کو روزہ رکھتے دیکھتے تو خود بھی روزہ رکھنے کی ضد کرتے یہی وجہ ہے کہ ہم نے سات سال کی عمر میں روزہ رکھنا شروع کر دیا پھر سحری میں اٹھنے کی وجہ سے اماں فجر کی نماز پڑھنے کے لئے بھی کہتی اس طرح آہستہ آہستہ یہ عادت بھی پختہ ہوتی گئی، ساتھ ساتھ روزے اور ماہ رمضان کی فضیلت سے آشنائی انہی کی تربیت سے حاصل ہوئی
بابا بھی چاہے انہیں کتنی ہی مصروفیت ہوتی ہمیں رمضان المبارک کےحوالےسے ضرور کوئی اہم تعلیم فرماتے_الحمدللہ
اس ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ بچوں کو شروع سے ماہ رمضان اور روزے کی افادیت و اہمیت سے ضرور متعارف کرائیں روزے رکھنے کی عادت بھی پیدا کریں کیونکہ معزرت کے ساتھ کہوں گی کہ اج کل اکثر گھرانوں میں مجھے یہ بات نظر اتی ہے کہ والدین پڑھائی کی وجہ سے یا گرمی کی وجہ بچوں کو روزے رکھوانے سے کتراتے ہیں جبکہ یہ سوچ سراسر غلط ہے روزے کی حالت میں بچوں کی صحیح تربیت بھی ممکن ہے انہیں نیکی کا احساس دلائیں کہ روزے کی حالت میں اللہ دگنا ثواب دے گا انعامات کی بارش ہوگی اسی طرح روزے کی حالت میں برائی سے بچنے کی تلقین کرنا بھی لازمی ہے، اور یقینا بچپن کی دی ہوئی تربیت انسان کی پوری زندگی پر مسلط رہتی ہے اس لئے اس تربیت کا آغاز اس رمضان المبارک سے شروع ہوجانا چاہیے ان شاءاللہ