قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین صلى الله عليه وسلم، حدیث:۳۵۳۴، ۳۵۳۵)۔
ختم نبوت کا عقیدہ ایمان بالرسل سے منسلک ہے یہ ایمان کا حصہ ہے۔ لہذا جو ختم نبوت کو نہیں مانتا قرآن کو اللہ کی آخری کتاب نہیں مانتا اسکا ایمان ہی نہیں ہے۔ ایمان چھ باتوں کا مجموعہ ہے۔ اللہ پر رسولوں پر آسمانی کتب پر فرشتوں پر آخرت اور تقدیر پر پختہ یقین رکھنے سے ایمان مکمل ہوتا ہے اور جس کسی کو ایمان کے دو حصوں ایمان بالرسل اور ایمان بالکتب پریقین ہی نہیں تو وہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔ رسولِ اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر سلسلۂ نبوت و رسالت کے اختتام کی ایک واضح دلیل یہ بھی ہے کہ آپﷺ قیامت تک پوری انسانیت کے لیے نجات دہندہ اور ہادی و رہبر بناکر بھیجے گئے۔ جب آپﷺ کی ہمہ گیر شریعت، ختمِ نبوت اور آخری نبوت و رسالت کا اظہار قرآنِ کریم کررہا ہے، دین کی تکمیل اور شریعتِ محمدیؐ کی ہمہ گیری اور منشورِ ہدایت ہونے کا اعلان اللہ تعالیٰ خُود فرما رہا ہے، تو پھرکسی اور نبی کے تصورکا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ قرآن و سنت، اجماعِ امّت اور بنیادی اسلامی تعلیمات اس حقیقت پر گواہ ہیں کہ عقیدۂ ختم نبوت دین کا بنیادی شعار، رسالتِ محمدیﷺ کا امتیاز اور اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔جس پر ایمان دین کا بنیادی تقاضا ہے۔ اس عقیدے پرایمان کے بغیراسلام کا تصور بھی محال ہے۔
اٹھارویں صدی عیسویں کےاواخر میں برصغیر پاک وہند ( جنوبی ایشیا) پر انگریزوں کے دور حکومت میں اسلام دشمن قوتوں ( عیسائی مشنری نے اپنی کوششوں میں ناکامی کے بعد) مسلمانوں کو کمزور اور منتشر کرنے کے لیے ان کے ایمان پر وار کرنے کی کوششیں کیں۔ گستاخی رسول اور دیگرفتنوں کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی لیکن اس وقت کے علمائے حق اور غیور مسلمانوں نے ان فتنوں کے خلاف آواز اٹھائی اور ایسی کوششوں کو قبول نہیں کیا۔ بس چند مٹھی بھر نا عاقبت اندیش کمزور ایمان و علم رکھنے والے لالچی و خود غرض لوگ ان فتنوں میں سے ایک بڑے فتنے فتنہ قادیانیت یا احمدی و لاہوری گروہ( ملعون مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی ماننے والے گروہ) سے متاثر ہوکر اس میں شامل ہوگئے۔ بعد ازاں ان میں سے بھی کچھ لوگوں کا ایمان اس دور کے علمائے حق کی تبلیغ اور مناظروں میں پیش کیے جانے والے دلائل کی بدولت جاگ اٹھا اور وہ اس فتنے سے تائب ہوکر دوبارہ دائرہ اسلام میں واپس پلٹ آئے۔ لیکن جب انیس سو سینتالیس میں پاکستان بن گیا تو اسلام دشمن قوتوں ( خصوصا عیسائی مشنری) نے اس فتنے کو پاکستان میں بھی زور شور سے فروغ دینے کی کوششیں کیں۔ انیس سو تریپن میں ان کوششوں میں تیزی آگئی ۔
قیام پاکستان کے بعد احمدیوں کے خلاف کئی سال تک تحریکیں چلتی رہیں، 1953ء اس حوالے سے زیادہ مشہور سال ہے ان تحریکوں میں کئی علما مثلاً مولانا عبدالستار خان نیازی اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودوی کو پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہوا۔ ہوتا بھی کیسے؟ کیونکہ چودہ صدیوں سے امتِ محمدیہ کا اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ جبکہ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آ سکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اسلام نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔ اس فتنے کے حوالے س ہمیں قائد اعظم اور علامہ اقبال کی رائے بھی سامنے رکھنا ہوگی۔
قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ:
’’جب کشمیر سے واپسی پر قائدِ اعظمؒ سے سوال کیا گیا کہ آپ کی قادیانیوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟ تو قائد نے فرمایا کہ ’’میری رائے وہی ہے جو علماء کرام اور پوری امت کی ہے‘‘۔ یعنی قائد اعظم پوری امت کی طرح قادیانیوں کوکافر سمجھتے تھے۔
علامہ اقبال کے نزدیک :
’’ختم نبوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعد اسلام اگر یہ دعویٰ کرے کہ مجھے الہام وغیرہ ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافر ہے تو وہ شخص کاذب ہے اور واجب القتل بھی”۔ انیس سو سینتالیس میں قیام پاکستان کے بعد سے ہی مسلمانوں میں اس حوالے سے بڑی تشویش پائی جاتی تھی کہ مرزائی اور قادیانی اس نوزائیدہ مملکتِ خداداد کو کہیں نقصان نہ پہنچادیں۔ کیونکہ بقول اقبال
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے شرار بولہبی
عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے دین حق کی حفاظت کے سلسلہ میں ایک اہم مورچہ اور مضبوط ومستحکم دستہ علماء حق کے گروہ نے عوامی تائید سے سنبھال لیا۔ جب مئی1974ء میں نشتر میڈیکل کالج ملتان (اب یونیورسٹی) کے طلبہ کا ایک گروپ سیروتفریح کی غرض سے چناب ایکسپریس سے پشاور جا رہا تھا۔ جب ٹرین ربوہ (قادیانیوں کے مرکز) پہنچی تو قادیانیوں نے اپنے معمول کے مطابق مرزا قادیانی کی خرافات پر مبنی لٹریچر تقسیم کرنا شروع کردیا۔ نوجوان طلبہ اس بات پر مشتعل ہوگئے اور انہوں نے بجا طور پر ختم نبوت زندہ باد اورقادیانیت مردہ بادکے نعرے لگائے۔ اس بات کا بدلہ لینے کے لیے قادیانیت کے علم برداروں نے 29مئی کو یہ طلبہ سیر و سیاحت کے بعد جب پشاور سے واپس ملتان آرہے تھے تو ربوہ ( قادیانیوں کے مرکز) پہنچتے ہی قادیانیوں نےدیسی ہتھیاروں سے مسلح ہوکر نہتے طلبہ پر حملہ کیا طلبہ کو نہایت بے دردی سے مارنا پیٹنا شروع کردیا، انہیں لہولہان کردیااوران کا سامان لوٹ لیا۔ آناً فاناً یہ خبر پورے ملک میں پھیل گئی اور ہر جگہ قادیانیوں کی اس حرکت کے خلاف مظاہروں کاایک طوفان اُمڈ آیا۔ اس موقع پر علمائے حق کی سرپرستی میں عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کے لیے تحریک تحفظ ختم نبوت کا آغاز کیا گیا جو جون 1974ء میں نقطہ عروج پر پہنچ گئی جس میں مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کےلیے قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے (37) ممبران کی طرف سے قرارداد مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے 30جون 1974ء کو پیش کی۔
اس قرارداد کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی کا درجہ دیا اور کچھ ممبران پر مشتمل رہبرکمیٹی بنائی گئی جس میں بحیثیت ممبر اُس قرار دادپر 22اسمبلی ممبران کے دستخط مندرجہ ذیل ترتیب سے ہیں۔
1۔مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی،
2۔مولوی مفتی محمود،
3۔مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری،
4۔پروفیسر غفور احمد،
5۔مولانا سید محمد علی رضوی،
6۔مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک،
7۔چوہدری ظہورالٰہی،
8۔سردار شیر باز مزاری،
9۔مولانا ظفر احمد انصاری،
10۔مولانا صدر الشہید،
11۔صاحبزادہ احمد رضا قصوری،
12۔جناب محمود اعظم فاروقی،
13۔مولانا نعمت اللہ صاحب،
14۔جناب عمرا خان،
15۔ جناب غلام فاروق،
16۔سردار مولا بخش سومرو،
17۔جناب رئیس عطا محمد مری،
18۔مخدوم نور محمد ہاشمی،
19۔سردار شوکت حیات خان،
20۔جناب علی احمد تالپور،
21۔جناب عبدالحمید جتوئی،
22۔راؤ خورشید علی خان شامل تھے۔
قومی اسمبلی کے مسلسل اجلاس کے دوران مرزا ناصر کو صفائی اور سوالات کے جوابات کا پورا موقع دیا گیا لیکن مرزا ناصر (180) سوالات کے تسلی بخش جوابات نہ دے سکا۔ بالآخر7ستمبر1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے یہ بل پاس کیا۔ پاکستان وہ واحد خوش بخت اسلامی ملک بنا جس کے آئین کی رو سے منکرین ختم نبوت قادیانیوں کوسب سے پہلے سرکاری سطح پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔
جب قادیانیت کےپیروکار اسکے بعد بھی فتنہ پروری سے باز نہ آئے انہوں نے 17 فروری 1983ء میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے ایک مبلغ محمد اسلم قریشی کو مبینہ طور پر مرزا طاہر کے حکم پر مرزائیوں نے اغوا کیا تو یہ واقعہ ایک بار پھر بھرپور تحریک تحفظ ختم نبوت کے آغاز کا سبب بنا۔ اس تحریک کے سبب اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق نے26اپریل1984ء کو ”امتناع قادیانیت آرڈیننس“ جاری کیا، جس کے مطابق قادیانیت کی تبلیغ و تشہیر، قادیانی کا خود کو مسلمان ظاہر کرنا، اذان دینا، اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہنا اور شعائر اسلام استعمال کرنے کو جرم قرار دے دیا گیا۔
لیکن انتہائی تشویشناک بات ہے کہ آج اس قانون کو کالعدم کرنے اور فتنہ قادیانیت کو فروغ یا ڈھیل دینے کے لیے عدالتوں سے قادیانیوں ( مرزائیوں) کے حق میں ایسے فیصلے سامنے آرہے ہیں کوئی بھی غیرت مند مومن ایسے کسی فیصلے یا اقدام کو کبھی قبول نہیں کر سکتا بلکہ ہر مسلمان ایسے فیصلوں کی بھرپور مخالفت کرے گا۔ در حقیقت قادیانیت اسلام دشمن لابی کا بنایا ہوا اسلام کے متوازی ایک ایسا مصنوعی مذہب ہے جس کا مقصد اسلام دشمن سامراجی طاقتوں کی سرپرستی میں اسلام کی بنیادوں کو متزلزل کرنا ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے ؟ کہ قادیانیت کے یوم پیدائش سے لے کر آج تک اسلام اور قادیانیت میں جنگ جار ی ہے اور ان شا اللہ ہمیشہ جنگ رہے گی۔ آج بھی علمائے حق اوراہل علم و دانش قادیانیوں کا ہر میدان میں تعاقب کر رہے ہیں۔ تحریر و تقریر ، سیاست و قانون اور عدالت میں غرض کہ ہر میدان میں قادیانیوں کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔ آئندہ بھی شکست ان مرتدوں ( قادیانیوں مرزائیوں احمدیوں ) کا مقدر ہوگی ان شا اللہ۔