پاکستان میں جب بھی انتخابات ہوتے ہیں تو ان کے نتائج پر اکثر سوالات اٹھتے ہیں ۔یہ سوالات صرف پاکستان میں میڈیا اور مبصرین نہیں اٹھاتے بلکہ دنیا کے وہ ادارے بھی اٹھاتے ہیں جن کی رپورٹس پاکستان میں معنی خیز سمجھی جاتی ہیں ۔ جیسا کہ فچ،موڈیز،فافن اور اس کے علاوہ امریکہ ، برطانیہ اور یورپ نے پاکستان میں حالیہ انتخابات کے نتائج کی تاخیر پر تحفظات کا اظہار کیا اور پاکستان سے کہا کہ نتائج میں بے ضابطگیوں کی تحقیق کی جائے ۔ اس کے علاوہ مضحکہ خیز نتائج کی وجہ سے ملک میں بے چینی کا ماحول ہے اور اقتدار کے لیے کھینچا تانی شروع ہے ۔
اگر انتخابات پر نظر ڈالی جائے تو انتخابات والے دن ریاستی مشینری مکمل سرگرم تھی اور ہر اس حربے کو استعمال کیا گیا جس سے انتخابی نتائج کوتبدیل کروایا جاسکتاتھا یااپنا حق میں لایا جاسکتا تھاجیساکہ کراچی میں 8 فروری کو موبائل سگنل نہ ہونے کی وجہ سے ووٹر ز ادھر ادھر بھاگ رہے تھے اور اپنا پولنگ اسٹیشن ڈھونڈ رہے تھے ۔ اس کے باوجود لوگ نکلے اور اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ۔
ایک ٹی وی نیٹ ورک کے الیکشن سیل میں نتائج کو مانیٹرکرتے ہو ئے بہت قریب سے نتائج دیکھنے کا موقع ملا ۔ عینی شاہد کے طور پر کہہ سکتا ہوں کہ اس رات کو جب نتائج ہمارے رپورٹرز کی طرف فارم 45 کے مطابق آرہے تھے تو ان میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اور کراچی میں جماعت اسلامی کے امیدوار آگے تھے جیسا قومی اسمبلی کی سیٹ 246 پر حافظ نعیم الرحمان آگے تھے ، این اے 232 پر آزاد امیدوار عادل احمد آگے تھے اور این اے 235 پر سیف الرحمن آگے تھے مگر پھر نتائج رک گئے یا روک دیئے گئے تین دن کے بعد پھر پتہ چلا کہ جو آگے تھے وہ پیچھے رہ گئے اور جو پیچھے تھے وہ آگے نکل گئے۔
جس طرح انتخابات کروائے گئے اور جس طرح نتائج آئے ۔اس سے ملک میں استحکام تو نہیں آئے گا بلکہ انتشار مزید بڑھے گا۔ باقی ملکوں میں جب اتخابات ہوتے ہیں تو اسی رات کو پتہ چل جاتا ہے کہ کون آگے اور کون پیچھے ہے ۔ کونسی پارٹی پہلے نمبر پر ہے اور کونسی دوسرے نمبر پر ہے۔کسی سیاست دان کےوزیر اعظم بننے کے امکانات ظاہر ہوجاتے ہیں تو دیگر ممالک خصوصاً دوست ممالک کے سربراہان مبارک باد دیتے ہیں مگر اس بار اب تک کسی نے بھی مبارک باد نہیں بھیجی ۔ وہ ممالک کل پاکستان کی مالی مد د کیسے کریں گے کہ ہم ایک صاف اور شفاف انتخابات کرانے میں ناکام رہے ۔
انتخابات کے بعد پاکستان میں استحکام آنا تھا مگر پاکستان میں عدم استحکام آئے گا ۔ مشکوک نتائج کی وجہ سے پاکستان میں ہر طرف احتجاج کی صدا بلند ہورہی ہے ۔ ایک تماشا لگا ہوا ہے جس میں کچھ لوگ کوشش کررہے ہیں کہ ان کو زیادہ حصہ مل جائے جیسا کہ مولانا فضل الرحمنٰ نے نتائج کے بعد مقتدرہ کو ٹارگٹ کیا اور این اے 43 سے اپنے بیٹے اسد محمود کو جتوانے کے لیے فوج کی نگرانی میں دوبارہ ووٹنگ کامطالبہ کیا گیا۔اسی وجہ سے اگلے دن ہی مولانا اپنے بیان سے منحرف ہوگئے اور دوسری طرف حافظ نعیم الرحمان جنہوں نے خیرات کی دی ہوئی سیٹ یہ کہتے ہوئے واپس کردی کہ فارم 45 کے مطابق پی ٹی آئی کا حمایت یافتہ امیدوار آگے تھا اس لیے یہ اس کا حق ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ مولانا کا بیٹا پولنگ میں پھر ہار گیا۔
اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ جو لوگ سچ بولتے ہیں یا حق کا ساتھ دیتے ہیں ان کو ہم ذہنی مریض بناتے ہیں جیساکہ روالپنڈی ڈویژن کے کمشنر نے میڈیا کے سامنے جرم کا اعتراف کیا مگر پنچاب کے نگراں وزیر اطلاعات عامر میر اور مسلم لیگ نواز پنچاب کے صدر رانا ثناء اللہ نے اس کو ذہنی مریض قرار دیا اور چند روز بعد کمشنر صاحب نے بیان پر معافی مانگ لی۔ اسی طرح اسپیشل کورٹ کے جج وقار سیٹھ نے جب مشرف کو پھانسی دینے کے بعد لاش لٹکانے کی بات کی تھی تو لاہور ہائی کورٹ نے اس کو ذہنی مریض قرار دے کر سزا کو معطل کردیا تھا ۔ان تمام کرتوتوں سے لگتا ہے کہ اس کے پیچھے مخصوص لوگ ہیں اور ان کے اپنے مفادات ہیں کہ ایک آئینی ادارہ تین دن تک نتائج رکوادیتا ہے اور اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوتی تو تاثر یہی ملتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
مضحکہ خیز نتائج کی وجہ سے پاکستان ایک بار پھر عدم استحکام کے دلدل میں دھنسا جارہا ہے اور اس کی قیمت عام آدمی ادا کرے گا کیونکہ فائدہ اٹھانے والے فائد ہ اٹھا کر باہر چلے جائیں گے اور ان کی جگہ فائدہ اٹھانے والے دوسرے آجائیں گے۔کیا یہ اس ملک کو آگے لے جانے کا راستہ ہے ؟ نہیں۔ کیا یہ عوام کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی کے نمائندے منتخب کریں ؟ مگر کیا کریں اس ملک کی کہانی قانون نہیں کچھ اور ہے اوراس کہانی کو ختم کرنے کا وقت آپہنچا ہے ۔ اس ملک کو قانون کے مطابق چلنے دیا جائے اور انتخابی نتائج کو واپس کر کے جس کو عوام نے مینڈیٹ دیا ہے اس کو وہ مینڈیٹ واپس کیا جائے تاکہ اس ملک میں عدم استحکام کی جگہ استحکام کا راستہ ہموار ہوسکے۔