مقصد سے غافل،بھونکتے بھاگتے کتے

مقصدیا گول سیٹنگ کی اہمیت وافادیت کے بارے میں یوں تو کئی افسانے اور کہانیاں مشہور ہیں۔کتوں کو گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے اور بھونکتے اکثر نے دیکھا ہوگا۔بھاگنا اور بھونکنا یہ ان کی عادت ثانیہ ہی نہیں بلکہ ان کا محبوب مشغلہ بھی ہوتا ہے۔گاڑیوں پر چڑھ دوڑنے اور بھونکنے کو یہ اپنا ایک عظیم مقصد سمجھ کراسے بڑی یکسوئی سے انجام دیتے ہیں۔

زندگی میں گول سٹنگ کی کیا اہمیت ہے؟

بغیر سوچے سمجھے جب کسی پیشے یا کام سے جب کوئی فرد بغیر مقصد و گول کے وابستہ ہوجاتا ہے تو پھر زعم حصول یابی میں وہ جو چاہے کر گزرتاہے۔بے مقصد کسی سرگرمی یا کام کو انجام دینا گویا اپنی زندگی کو تلف کرناہے۔

ایک مثال سے یہ بات اور واضح ہوجائے گی۔ گلی کے کنارے بیٹھےکتے کے سامنے سے جب کوئی گاڑی،کار،موٹر بائیک گزرتی ہے تو چند گز یا چند میڑ تک اس کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے۔جب وہ گاڑی کی رفتار کو نہیں پکڑپاتا ہے تو چاروناچار اپنی اسی جگہ پر آکر براجمان ہوجاتا ہے۔ایسا ہی ایک سگ گلی کے کنارے بیٹھا تھا۔جب ایک کار اس کے پاس سے گزری تو وہ اس کے پیچھے سرپٹ دوڑنے لگا۔ کار کی تیزی کے آگے کتے کی رفتار جواب دے گئی۔وہ واپس اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک اور کار اس کے پاس سے گزری۔تیزکار کو دیکھ کر کتا پھر ہمک اٹھا اور اس کے پیچھے لگ گیا۔اس بار بھی نامرادی اس کے ہاتھ آئی۔کتے کی اس حرکت کو دیکھ کر وہاں پر کھڑے ایک آدمی نے اپنے دوست سے کہا یہ کتا کیوں کار کے پیچھے بھاگ رہا ہے؟کیا یہ کار کو پکڑ سکتا ہے؟ اس کے دوست نے کہا یہ بات اہم نہیں ہے کہ وہ کار کو پکڑے گا کہ نہیں۔ تصور کرو کہ اگر یہ کار کو پکڑ لے گا تو کیا کرے گا؟

بھونکنا بھاگنا ایک اور گاڑی کے انتظار میں بیٹھے رہنا۔یا کوئی بفرض محال گاڑی کے رفتار سے اپنی رفتار ملانے میں کامیاب بھی ہوجائے تو کیا ہوتا ہے۔ہم اپنی کھولی آنکھوں سے اس کے سنگین نتائج دیکھ رہے ہیں۔

یوں تواکثر ایک اور گاڑی کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔یعنی گول اور مقصد سے عاری بھونکنے اور بھاگنے میں۔

جب بغیر کسی مقصد کے کام کرے گا توآدمی مطمئن نہیں رہے گا۔جب مطمئن نہیں رہے گا تو پھر کسی گلی کے نکڑ پر کسی کار کے انتظار میں بیٹھ جائے گا اور اپنی تعاقب و دوڑ اور بھونکوں سے راہ گیروں کو پریشان کرے گا۔مقصد سے عاری افراد ہمیشہ سراسمیگی کا شکار رہتے ہیں۔ مقصد سے عاری لوگوں سے الجھنا کسی بھی طور مناسب نہیں ہے۔بے مقصد افراد ہوں یا مشغلے دوری ہی بہترہے۔

اس سلسلے میں برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل کارویہ قابل تقلید معلوم ہوتا ہے۔ونسٹن چرچل اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک ایسی تنگ گلی سے گزررہے تھے جس سے ییک وقت دو آدمی نہیں گزر سکتے تھے۔مخالف سمت سے ایک حزب اختلاف کا لیڈر آدھمکا۔ دونوں ایک دوسرے کودیکھنے لگے۔مخالف لیڈر نے کہا ’’میں گدھوں کوراستہ نہیں دیتا‘‘۔ ’’لیکن میں دے دیا کرتا ہوں۔‘‘ ونسٹن چرچل نے خود کو سمیٹ کراسے راستہ دے دیا۔

مقصد سے آگہی ضروری ہے۔اگرمقصد سے واقف ہیں تو پھر راستہ دے دیجیے۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔