جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ اس میں حکومت کا فیصلہ عوام کرتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت اکثر کمزور رہی ہے اور کبھی کبھی آمریت کی نظر بھی ہوجاتی ہے۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ پاکستان میں ایک بھی انتخاب شفاف نہیں ہوا اور ہربار عوام کو بیوقوف بناکر دھاندلی سے نتائج تبدیل کروائے گئے ہیں۔ لیکن پاکستان کی تاریخ کسی کو نہیں بھولتی اور نہ کسی واقعے کو کیونکہ تاریخ نام ہی ایسی چیز کا ہے ۔ پاکستان میں اکثر انتخابات کے بعد جیتنے والوں نے کچھ عرصہ بعد عوام کے ووٹ سے نہیں بلکہ مقتدر قوتوں کی مدد سے جیتنے کا اعتراف خودکیا ہے لیکن اس بار عوام نے 8 فروری کے انتخابات میں اپنا فیصلہ سنا دیا اور جن کو ووٹ دیا یا منتخب کروایاوہ سب کے سامنے ہے مگر اس بار جو دھاندلی کی گئی یا کروائی گئی اس کی مثال بھی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پہلے انتخابات والے دن دھاندلی کی جاتی تھی مگر اب کی بار انتخابات سے پہلے بھی دھاندلی کی گئی اور بعد میں بھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ 8 فروری کے انتخابات کے نتائج الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جاری کرنے کا اعلان الیکشن کمیشن نے ایک ہفتہ پہلے خود کیا اور عوام سے کہا کہ 8 فروری کی رات دو بجے تک فارم 47 جاری کردیئے جائیں گے۔ مطلب انتخابات کے نتائج کا اعلان کردیا جائے گا۔ مگر ہوا کچھ اور وہ بھی قانون کے مطابق نہیں ہوا۔ توقع کے برخلاف گنتی دیکھ کر نتائج رک گئے یا روک دیئے گئے ۔ فارم 45 اور فارم 47 الگ الگ کہانی سنانے لگ گئے جس میں ریکارڈ دھاندلی کے شواہد بھی مل گئے۔ دھاندلی کیسے ہوئی؟ اس کو سمجھنے کے لیے فارم 45 اور فارم47 کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ فارم 45 پر ہر پولنگ اسٹیشن کا نتیجہ ہوتاہے، اس پر پریذائیڈنگ آفیسر کا دستخط ہوتے ہیں اور مہر بھی لگتی ہے اور اس کے بعد ہر امیدوار کے ایجنٹ کو فارم 45 دیا جاتا ہے اور اسی کی بنیاد پر ریٹرننگ آفیسر فارم 47 جاری کرتا ہے جو پورے حلقے کا نتیجہ اس میں درج کرتا ہے ۔ یعنی پولنگ اسٹیشن کا نتیجہ جاننے کے لیے فارم 45 دیکھا جاتا ہے اور حلقے کا نتیجہ جاننے کے لیے فارم 47 دیکھا جاتا ہے اور الیکشن کمیشن فارم 47 کو انپی ویب سائٹ پر جاری کرتا ہے۔ لیکن جس طرح 2018ء میں آر ٹی ایس کو بٹھایا گیا اس بار فارم 47 آر اوز کے دفاتر سے روک دیئے گئے۔ نتائج میں 3 دن کی تاخیر سے یہی تاثر ملتاہے کہ اس بار عوام نےجن کو ووٹ دیا وہ مقتدر قوتوں کے امیدوار یا ان کے حمایت یافتہ نہیں تھے اس وجہ سے وہ جیت کر بھی ہار گئے۔ عوام نے اس بار مقتدر قوتوں کے حمایت یافتہ امیدواروں کو مکمل طور پر مسترد کردیا۔ جس حساب سے دھاندلی کی گئی اسی پر بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسے فارم 47 توالیکشن سے چار دن پہلے ہی جاری کردیے جاتے تو قوم کے پچاس ارب روپے بچ جاتے۔
اس انتخابات سے مقتدرہ اور وہ سیاسی پارٹیاں جو مقتدرہ کے ہاتھوں استعمال ہوتی ہیں۔ ان کے لیے اس انتخابات میں ایک بہت بڑا سبق ہے۔ وہ دور اب پاکستان میں نہیں رہا کہ انتخابات میں ان کی مرضی کے مطابق عوام سے ووٹ ڈلوایا جائے گا۔ اس انتخابات میں نیا یہ ہوا کہ پاکستان تحریک انصاف انتخابات میں نہیں تھی۔ قیادت جیل میں تھی، اتخابی مہم چلانے نہیں دی گئی اور اس سےبڑھ کر اکثر تجزیہ نگار اور کالم نگار کہتے تھے کہ پاکستان تحریک انصاف کا صفایا ہوجائے گا لیکن عوام نے ان تمام تجزیوں کو غلط ثابت کردیا۔ اس انتخابات میں اگر دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے مینڈیٹ کو ثبوت کے ساتھ چرایا گیا جیسا کہ میئر کراچی کے انتخاب میں اکثریت حافظ نعیم الرحمٰن کی تھی مگر منتخب مرتضیٰ وہاب کو کرایا گیا۔ اگر اسی طرح مینڈیٹ کو چرایا جائے تو پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام کیسے آئے گا۔ قوم ہمیشہ اپنی غلطیوں سےسیکھتی ہے مگر پاکستان میں نظام چلانے والوں کی اتنی زیادہ غلطیاں ہیں کہ گنی نہیں جاسکتیں۔ جب مقتدرہ اور ادارے عوام کے فیصلوں کا احترام نہیں کریں گے تو ملک آگے کیسے بڑھے گا۔ آج تو حالات اتنے برے ہیں کہ دوردور تک کوئی امید نظر نہیں آتی۔
اس ملک کے ساتھ 75 سال سے جو کچھ ہورہا تھا اب اس کی گنجائش نہیں ہے اس ملک کی بہتری اسی میں ہے کہ اس ملک کو عوام کے فیصلوں کے مطابق چلنے دیا جائے۔ اس بار عوام نے جن کو مینڈیٹ دیا ان کا مینڈیٹ واپس کیا جائے اور ان کوحکومت سازی کا موقع دیا جائے تاکہ اس ملک کو قانون اور آئین کے مطابق چلایا جاسکے۔ جن لوگوں نے اس انتخابات میں عوام کے مینڈیٹ کا تمسخر اڑایا ان کو قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے تاکہ آنے والے وقت میں عوام کا مینڈیٹ چرانے کی کوئی جرت نہ کرسکے۔ اگر مقتدرہ اور ادارے چاہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام آئے، بےروزگاری، غربت، مہنگائی اور آئی ایم ایف سے جان چھوٹے تو عوام کے فیصلوں کا احترام سب نے کرنا ہوگا ورنہ یہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی نہیں رہے گی۔