سیاست دان اور عوام صرف سیاست کی باتیں کرتے ہیں اور عوام بھی اب مختلف سیاست دانوں کے نظریات سے متاثر ہو کر ایک دوسرے کو اپنے الفاظ کے نادرونایاب خزانے سے نوازتے ہیں جبکہ ملک سے اور عوام کے گھروں سے خوشحالی ختم ہوچکی ہے۔
مہنگائی کی صورت میں پریشانیوں نے اس ملک کا اور اس کے عوام کا گھیراؤ کر لیا ہے۔ مہنگائی کی بات کی جائے تو مہنگائی پر کوئی کام نہیں کر رہا کہ اسے کس طرح روکا جاسکتا ہے اور سب لوگوں کا زور اس بات پر ہے کہ تنخواہیں بڑھائی جائیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک بار جو چیز مہنگی ہوجاتی ہے، وہ دوبارہ سے سستی کیوں نہیں ہوتی؟ کیا اس کی وجہ حکومت ہے؟ یا وہ کاروباری حضرات جو اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے پورے پاکستان کا اور اس کے لوگوں کا نقصان کر رہے ہیں۔
میں اس کی مثال بجلی کی قیمتوں کے بل کے بارے میں لکھ کر دے سکتا ہوں کیونکہ تمام پاکستانیوں کی کمائی کا زیادہ تر حصہ بل کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ یہ وہ بلز ہیں جو 2017ء میں پاکستانی عوام 7روپے فی یونٹ کے حساب سے ادا کرتے تھے۔
کہا جاتا تھا کہ بجلی بنانے والے لوگ بجلی کو اس لیے اس سے سستا نہیں کرسکتے کیونکہ بجلی کے بلوں کا دارومدار تیل کی عالمی قیمتوں پر ہوتا ہے۔ اگر ہم تیل کی عالمی قیمتوں پر نظر ڈالیں تو گزشتہ 2 سالوں میں عالمی تیل کی قیمتیں 60فیصد تک کم ہوچکی ہیں مگران دو سالوں میں بجلی کی قیمت میں 80فیصد تک اضافہ ہوا۔
کیا اس اضافے کی وجہ وہ لوگ ہیں جو اداروں کے اندر قیمت کے کنٹرول کو دیکھتے ہیں یا پھر عوام کی بے علمی ہے یا سیاست دانوں کی بے علمی؟ اگر آپ اداروں کے سربراہ کی تعلیم کے بارے میں معلومات حاصل کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس اہم عہدے پر جو لوگ براجمان ہیں، ان کی تعلیم صرف بیچلر آف آرٹس ہے۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ دوسری مثال آئل سے پیٹرول اور پیٹرول اور آئل سے چلنے والی تمام اشیاء مہنگی کیوں ہورہی ہیں؟ ہوائی جہاز کا کرایہ بھی دو سال قبل یہ کہاجاتا تھا کہ بہت زیادہ ہے۔ اس کی وجہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ بیان کی جاتی تھی۔
مگر آج دوبارہ سے یہ مثال درست ثابت ہوتی نظر نہیں آتی، کیونکہ دو سال سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے مگر ائیر لائنز کے ٹکٹس کی قیمتیں90فیصد تک بڑھ چکی ہیں۔ کیا اس مہنگائی کے دوران بھی عوام، ادارے ، سیاست دان غافل بیٹھے ہیں؟ اور اس ظلم پر خاموشی کی آخر کیا وجہ ہے؟
تیسری قسم کی مہنگائی لوگوں کے کھانے پینے کی چیزوں میں دیکھنے میں آتی ہے۔ ماضی میں کہا یہ جاتا تھا کہ پیٹرول مہنگا ہونے کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء منڈیوں سے خریدار تک پہنچانا ایک مہنگا عمل ہے۔ اسی وجہ سے مہنگائی زیادہ ہے، تاہم دیکھا یہ جاتا ہے کہ جنوری 2023 میں پیٹرول کی قیمت 332روپے فی لیٹر تھی جو آج 2024 کے آغاز میں یا پچھلے 6 ماہ کی بات کریں تو پیٹرول کی قیمتیں میں کمی ہوتی نظر آئی۔
اس دوران پیٹرول کی قیمت 260روپے فی لیٹر سے لے کر 275روپے فی لیٹر تک رہی۔ مگر پچھلے 6 ماہ میں کھانے پینے کی کسی بھی چیز کی قیمت پیٹرول کی قیمت کم ہونے سے متاثر ہو کر کم ہوتی دکھائی نہیں دی۔ کیا اس حقیقت سے بھی عوام، سیاست دان اور ادارے غافل ہیں؟
کچھ اسی طرح کی کئی دیگر زیادتیاں بھی پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ روا رکھی جارہی ہیں۔ مگر پاکستانیوں کیلئے سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر سیاسی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں اور کبھی ہم آپس میں سیاست پر لڑ رہے ہوتے ہیں یا اداروں کو برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں لیکن یہ کوئی نہیں سمجھتا کہ ہمارا مسئلہ سیاست دان نہیں سمجھ رہے بلکہ وہ ہمیں اداروں کے ساتھ لڑوا کر ہمارا دھیان ان چیزوں پر لگا رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں مہنگائی اور پریشانیاں بڑھتی چلی جارہی ہیں۔
اس طرح سے سیاست دانوں نے ہمیں بے وقوف بنایا کہ آج بھی سیاست دان اپنے اقتدار کے حصول کیلئے ہمیں آپس میں لڑوا رہے ہیں اور ہمارے مقاصد کیلئے انہوں نے کبھی سنجیدہ کام نہیں کیا جبکہ عوام کو ہمیشہ سے صرف اور صرف مہنگائی کی وجوہات بتائی گئیں مگر مہنگائی کو کم نہیں کیا گیا۔
آج ہمیں یہ چاہئے کہ تمام سیاست دانوں سے یہ سوال کریں کہ ایک ڈاکٹر سیاست دان جو ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرتا ہے وہ ہیلتھ منسٹر کیوں نہیں بنتا بلکہ وہ کبھی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا تو کبھی آئی ٹی کا وزیر کیوں بنتا ہے؟
کیونکہ ہم نے یہ دیکھا ہے کہ جتنے بھی سیاست دان ہیں، جس شعبے کی انہوں نے تعلیم حاصل کی ہے، وہ کبھی بھی اپنی تعلیم کے متعلقہ شعبے میں وزارتیں حاصل نہیں کرتے اور جو بھی وزارت ملتی ہے، اسے خوشی سے حاصل کرکے اپنے لیے فوائد حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔
آج تک پاکستان میں دیکھا یہ جاتا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر جو لوگوں کی تعلیم ہے، اس کے مطابق وہ کبھی بھی کام کرتے نظر نہیں آتے۔ بیچلر آف آرٹس کے سیاست دان سیاست میں ہیں اور پولیٹیکل سائنس کے طلبہ ہمیں بے روزگار، نوکری کی تلاش میں آرٹس کے شعبے میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔
جب تک اس قسم کا نظام چلتا رہے گا اور وزارتوں کی بندر بانٹ سیاسی لوگوں کو خوش کرنے کیلئے اور ان کے کارکنان کو خوش کرنے کیلئے جاری رہے گی، تو پھر یہ ملک ترقی نہیں کرسکتا اور نہ ہی ایسے منسٹر ہماری عوام کیلئے یا ہمارے ملک کیلئے کوئی فائدے کا کام کرسکتے ہیں۔