پریذائیڈنگ آفیسر کے لیے انتخابی عمل کا سب سے مشکل مرحلہ فارم 45 اور 46 کو اے سی کے دفتر جمع کروانے کا ہے۔ گنتی کا عمل شروع ہوتے ہی وہ فارم 45 اور 46 تیار کرنا شروع کر دیتا ہے۔فارم 45 انتخابی عمل میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور فارم 46 بیلٹ پیپرز کا گوشوارہ ہوتا ہے۔ امیدواروں نے الگ الگ جتنے ووٹ لیے ہیں ان سب کا مجموعہ بیلٹ باکسز سے نکالے گئے ووٹوں کی تعداد کے برابر ہونا ضروری ہے۔ اسی میں اساتذہ زیادہ تر غلطیاں کرتے اور اے سی کے سامنے بے عزتی کرواتے ہیں۔ خاص طور پر وہ اساتذہ جن کو ٹریننگ کے بغیر ڈیوٹی الاٹ کر دی جاتی ہے۔ اور تیس تیس کلومیٹر دور بھیج دیا جاتا ہے۔ اس بے عزتی سے بچنے کے لیے وہ سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور اس کو بڑی عرق ریزی سے تیار کرتے ہیں۔
ٹیمپر ایویڈینٹ بیگ پلاسٹک کا بیگ ہوتا ہے جس میں فارم 45 اور 46 کی کاپی ڈال کر سر بمہر کر دیا جاتا ہے۔ ایک بار اوپن کر دیا جائے تو دوبارہ اس طرح بند نہیں ہو سکتا۔ اس لیے پتہ چل جاتا ہے کہ اس کیساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ وہ فارم سب سے مستند سمجھا جائے گا جو اس بیگ میں ہوتا ہے، دو بیگ تیار کیے جاتے ہیں۔ اور ان کو جب اے سی کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو یوں لگتا ہے میدان حشر ہے اور اعمال ناموں کی بابت سوال ہو گا۔ پلاسٹک کے وہ بیگز کھولے جاتے ہیں ان میں سے فارمز نکالے جاتے ہیں، جب اے سی کا نمائندہ انہیں پڑھ رہا ہوتا ہے، پریذائیڈنگ تھر تھر کانپ رہا ہوتا ہے اور جتنی دعائیں اور قل اسے آتے ہیں دل ہی دل میں دہرا رہا ہوتا ہے۔ فارم ٹھیک ہو جائے تو یوں بری ہو کر نکلتا ہے، جیسے سزائے موت معاف ہو جائے۔ اور اگر غلطی نکل آئے تو منہ پر دے مارا جاتا ہے کہ جاؤ جا کر درست کر کے لاؤ ۔ ایسے سب آفیسرز ہاتھ میں فارمز لیے اے سی آفس کے کوریڈور، برآمدوں اور سبزہ زار میں رات سے سحری تک درستی کرتے، ایک دوسرے سے فارمز مانگتے، ترلے منت کرتے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
رزلٹ جمع کروانے، ایک لمبی قطار اے سی آفس کے باہر کھڑی ہوتی ہے اور اپنی باری کیساتھ ساتھ اس پریذائیڈنگ کے باہر آنے کا انتظار کیا جاتا ہے جو رزلٹ جمع کروانے اندر گیا ہوتا ہے، جب وہ بچے کچھے کاغذات لے کر باہر نکلتا ہے تو اسے باقی اساتذہ کے ایک ہی سوال کا سامنا کرنا ہوتا ہے کہ کیا بنا؟
اگر وہ بری ہو کر آیا ہو تو فخر سے سر جھٹک کر خوشی خوشی سر کو اوکے کے انداز میں ہلاتا ہے اور اگر نہ بری ہوا ہو تو سر جھکائے خفگی سے کسی کونے کھدرے کی تلاش میں نکل جاتا ہے تاکہ غلطی درست کر سکے۔ فارم 45 اور 46 جمع کروانے کے تمام مراحل پار کرنے کے بعد
“ایک روز کا یہ مجسٹریٹ اول” ذلیل ہونے کے بعد گھر پہنچ کر خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے اور تین دنوں کی نیند پوری کرتا ہے۔ ایک دن سامان لینے میں صرف ہوتا ہے، دوسرا دن الیکشن اور تیسرا رزلٹ جمع کروانے میں گزر جاتا ہے۔
سلام ہے اساتذہ کو جو ملک و قوم کے لیے ہر حد سے گزرے۔ اگر حکم ہوا تو سرحدوں پر جا کر جنگیں بھی لڑیں گے۔ اساتذہ کے لیے الیکشن کے یہ سب مراحل اتنے تکلیف دہ نہیں ہوتے سوائے اس مرحلے کے جب وہ رات کو فارم 45 پوری ایمانداری سے بنا کر جیتے ہوئے امیدوار کے حق میں جمع کروا کر آئے اور صبح اسے خبر ملے کہ جیتنے والے ہار گئے اور ہارنے والے جیت گئے۔ اربوں روپے لگا کر تیس تیس کلو میٹر دور اجنبی علاقوں میں جا کر ڈیوٹی دینے والا یہ استاد انگشت بدنداں کہ یہ کیسا نظام ہے اور یہ کیسی بے بسی ہے۔