الیکشن شفاف ہی سمجھے جائیں

الیکشن جس طرح کے ہوا کرتے تھے، 2024 کے الیکشن کچھ اس سے مختلف بھی نہیں ہوئے۔ نتائج بھی ویسے ہی کچھ ہیں جیسے کئی الیکشنوں میں سامنے آتے رہے ہیں۔ رہی بات متنازع ہونے کی تو اس پر کئی پہلو سے بات ہو سکتی ہے لیکن سرِ دست جو بات ملک اور ملک سے باہر بہت شدت سے اٹھائی جا رہی ہے وہ پی ٹی آئی اور موجودہ اتحادیوں کی کامیابیوں اور ناکامیابیوں کی ہے۔ میں مسلسل اس بات کا تجزیہ کر رہا ہوں کہ موجودہ الیکشن کے بعد جو بھی نتائج سامنے آئے ہیں یا لائے جانے کی سعی و جہد جاری ہے، کیا اس میں پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کی ہار جیت کی درست منظر کشی کی جارہی ہے یا غلو سے کام لیا جا رہا ہے۔ الیکشن 2024 میں بہت سارے اعتراضات اٹھائے جا رہے جس میں سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس کے نتائج سامنے آنے میں اتنی تاخیر کیوں ہو ئی ہے، فارم 45 اور 47 کے نتیجوں میں بہت زیادہ تفاوت کیوں پایا جاتا ہے یا پھر یہ کہ خبروں کے چینلوں میں رات گئے تک جو اعداد و شمار مختلف امیدواروں کے حق میں دکھائے گئے تھے وہ اگلے اور اس سے اگلے دنوں سے کافی حد تک مختلف کیوں ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2018 کے الیکشن کے بعد جو نکات دھاندلی کے سلسلے میں اٹھائے گئے تھے وہ بھی سب کے سب اسی طرح کے تھے۔ اس کے بھی بہت سارے نتائج بہت ہی تاخیر کے ساتھ سامنے آئے تھے۔ رات گئے کے اعداد کے شمار کے مقابلے میں دوسرے دن کا سورج نکلے کے بعد کے نتائج میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ اسی طرح وفاداریوں کا بدلنا سامنے آیا تھا، بلکہ جہانگیر ترین کے ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کی پروازوں کی گھن گرج فضائے بسیط میں صاف سنائی دیتی تھی وغیرہ وغیرہ۔ 2013 میں بھی صورتِ حال اس سے مختلف نہیں تھی اور ان تینوں الیکشنوں میں جو چیز سب سے منفرد اور مشترک تھی وہ کراچی سے سامنے آنے والے نتائج کا سب سے زیادہ متنازع ہونا تھا۔ کراچی کے نتائج کو متنازعہ بنانے میں سب سے بڑا کردار الیکشن کمشنر کا تھا جس نے نتائج کے بعد پریس کانفرنس کے دوران یہ فرمایا تھا کہ “ہم مبارک باد دیتے ہیں کہ پورے ملک کے طول عرض میں ہم پر امن اور شفاف انتخابات کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن کراچی کے انتخابات میں ہم وہ کارکردگی نہیں دکھا سکے جو پورے ملک میں دکھائی”۔دنیا جانتی ہے کہ اس کے بعد جو بھی مہم الیکشن کے خلاف عمران خان نے چلائی تھی اس میں کوئی ایک مطالبہ بھی ایسا نہیں تھا جس میں اس نے حلقے کھولنے، دوبارہ گنتی کرانے یا الیکشن دوبارہ کرانے کا مطالبہ کراچی کے کسی حلقے کا کیا ہو۔

اس مرتبہ بھی سب سے زیادہ دھاندلی کی شکایات کراچی ہی کے بارے میں سامنے آ رہی ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ شکایات غلط ہی ہونگی لیکن جتنا زور کراچی کی دھاندلی کا مچایا جا رہا ہے، دیر سے لیکر خضدار تا کوئٹہ، نہیں اٹھایا جا رہا جبکہ اسی دوران پنجاب اور خیبر پختون خواہ اور پنجاب میں جہاں جہاں بھی دوبارہ ووٹوں کی گنتی ہوئی وہاں کئی مقام پر کامیابیاں ناکامیوں میں تبدیل ہوتی دیکھی گئیں۔

عام طور پر یہ خیال کیا جا رہا ہے اور ہمارا میڈیا بھی یہ بھر پور تاثر دیتا ہوا نظر آ رہا ہے کہ جیسے 2018 کے الیکشن کے نتائج سے بھی کہیں زیادہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے میدان مارا ہے۔ اگر دیانتداری سے تجزیہ کیا جائے تو 2018 کے الیکشن میں جتنی کامیابی پی ٹی آئی نے حاصل کی تھی اس کے مقابلے پی ٹی آئی وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی جس کی وجہ یقیناً یہ رہی ہوگی کہ اسے پارٹی کے نشان پر الیکشن نہیں لڑنے دیا گیا۔ پھر بھی جتنی کامیابیاں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امید واروں نے سمیٹیں ہیں وہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔ کے پی کے کے علاوہ نہ تو قومی اسمبلی میں 2018 جیسی کامیابیاں دیگر صوبوں میں حاصل ہو سکیں اور نہ ہی صوبائی اسمبلیوں میں۔ یہ پہلو بہر کیف پی ٹی آئی کو ضرور اپنے سامنے رکھنا ہوگا۔

نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں جو الیکشن بھی ہوئے ہیں وہ نہایت دھاندلی زدہ ہی ہوئے ہیں۔ بات صرف الیکشن ہی تک محدود نہیں، ایک تسلسل کے ساتھ جس طرح منتخب حکومتیں گرائی جاتی رہی ہیں اس کی مثال بھی دنیا کے کسی جمہوری ملک میں نہیں مل سکتی لیکن دنیا نے الیکشنوں یا حکومتوں کی توڑ پھوڑ پر کبھی آواز نہیں اٹھائی لیکن 2024 کے نتائج کو اس طرح لیا جا رہا ہے جیسے 2024 ہی کے الیکشن ایسے ہوئے ہیں جس کے نتائج ناانصافی پر مشتمل ہیں۔ سب سے زیادہ وہی ملک جس پر بانی پی ٹی آئی سب سے زیادہ یہ تنقید کرتے رہے کہ اس کے کہنے پر ان کی حکومت کو مسمار کیا گیا ہے، وہی زیادہ چیخ و پکار کر رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟، پی ٹی آئی کے بانی اس کا جواب خود بہتر دے سکتے ہیں کیونکہ “ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی”۔

اگر حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو پاکستان میں ممکن ہی نہیں کہ تا قیامت شفاف الیکشن ہو سکیں۔ جس کا جہاں زور چلتا ہے وہ چلا لیتا ہے۔ پورا ملک وڈیروں، ملکوں، چوہدریوں، سرداروں اور نوابوں کی لاٹھیوں سے ہانکا جاتا ہے اور جو چند شہری علاقے ان تمام آسیبوں کے اثر سے دور ہیں وہ چھاؤنیوں کی چھاؤں کے زیر تسلط ہیں۔ کسی کی کیا مجال جو اپنے بڑوں یا چھاؤنیوں کے پھیلتے پھولتے سایوں سے اپنے قدم باہر نکال سکے۔ میں غلط ہوں تو کوئی لاہوری، سندھی یا کراچی والا ڈیرہ بگٹی سے الیکشن لڑ کر دکھا دے۔ جب پاکستان میں ہر ایک کا دائرہ اثر الگ ہے تو پھر یہ بات بار بار کہنا کہ 2024 کے الیکشن “دھاندلہ” ہے، دل جلانے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔