کچھ لوگوں کی خواہشات کے برعکس بالآخر الیکشن 2024 کا انعقاد ہو ہی گیا لیکن اس الیکشن کے نتائج کو ملک کی تاریخ کے سب سے متنازع نتائج کہے جاسکتے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ آزاد امیدوار سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی نسبت زیادہ تعداد میں کامیاب ہوئے اور اس کی ایک بڑی وجہ سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ تھا جس کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف سے بل٘ے کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے نامزد امیدواروں نے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا اور اپنی کارکردگی سے تمام سیاسی پنڈتوں کو حیران کردیا ہے۔
اب تک الیکشن کمیشن کے باضابطہ نتائج کےمطابق تحریک انصاف کے حمایت یافتہ 92 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے ارکان سے زیادہ ہیں۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ فارم 45 کے مطابق اس کامیاب امیدواروں کی تعداد 170 سے بھی زائد ہے۔فارم 47 کے ذریعہ آر اوز نے ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا ہے۔ ان نتائج کو اب عدالتوں میں بھی چیلنج کیا جارہا ہے لیکن فی الوقت تحریک انصاف کو فوری ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ اسے 92 نشستوں پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا اور اپنے آزاد امیدواروں کو دوسری جماعتوں میں جانے سے روکنے کے لیے بھی تگ و دو کرنی پڑے گی۔
الیکشن کے جو نتائج آئے ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ اس میں سب سے زیادہ خسارے میں میاں نواز شریف رہے ہیں جو لندن سے چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کی خواہش لیے پاکستان آئے تھے لیکن ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ خالی میدان میں بھی خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے اور بال ان کے کورٹ سے نکل گئی ہے۔ مسلم لیگ ن وفاق میں حکومت بنانے تو جارہی ہے لیکن بحیثیت سیاسی جماعت اس کے لیے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ وہ آج کہاں کھڑی ہے؟
اس سیاسی کھیل میں اس وقت آصف زرداری سب سے بڑے فاتح نظر آرہے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ کے وزیراعظم کے امیدوار کو ووٹ دینے کا فیصلہ تو کیا ہے لیکن وہ وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہوگی اس کا مطلب یہ ہوا کہ ن لیگی حکومت ان کے رحم و کرم پر ہوگی۔ پیپلزپارٹی نے اپنے لیے صدر مملکت، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ جیسے اہم آئینی عہدے رکھ لیے ہیں اور مسلم لیگ ن کے ہاتھ پاٶں باندھ دیئے ہیں۔
ایم کیو ایم ایک مرتبہ پھر وفاقی حکومت کا حصہ بننے جارہی ہے۔ قومی اسمبلی کی 17 نشستوں پر کامیابی نے اس کی بارگینگ کی طاقت کو بڑھادیا ہے۔ تاہم 17 نشستوں پر کامیابی کا خود ایم کیوایم کو کو بھی یقین نہیں تھا کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ “اڑانے والوں نے کراچی میں پھٹی پتنگ بھی اڑا دی ہے”۔
سیاسی منظر نامہ اب واضح ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ وفاق میں مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کی کمزور حکومت بننے جارہی ہے۔ پنجاب میں ن لیگ، سندھ اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی اور کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت بنے گی مطلب تمام سیاسی قوتوں میں اقتدار تقسیم کردیا گیا ہے لیکن ان کی ڈوریں کسی اور کے ہاتھوں میں ہوں گی۔
عمران خان نے علی امین گنڈا پور کو وزیر اعلیٰ نامزد کرکے پیغام دے دیا ہے کہ وہ مفاہمت پر آمادہ نہیں ہیں۔ وہ اپنے مبینہ طور پر چھینے گئے مینڈیٹ کی واپسی اور اس کے لیے جدوجہد کرنے کی بات کررہے ہیں۔ جن لوگوں کو اس الیکشن سے یہ امید تھی کہ ملک میں سیاسی استحکام آئے گا ان کی امیدوں پر پانی ہھر گیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ملک مزید انتشار کی طرف جائے گا۔
انتخابات کے نتیجے میں آنے والا منقسم مینڈیٹ تقسیم کے عمل کو مزید بڑھائے گا اور معاشی بحران کے شکار ملک کو مزید مشکلات سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ سیاسی پنڈت یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ موجودہ سیٹ اپ اگر دو سال بھی نکال لے تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہوگی۔ ملک کو جلد یابدیر ایک نئے الیکشن کی طرف جانا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر سیاسی استحکام آنا ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ نئی حکومت سانجھے کی ہنڈیا ہے جوکسی بھی وقت چوراہے پر پھوٹ سکتی ہے۔