امید ابھی کچھ باقی ہے

ابھی آٹھ فروری کو الیکشن منعقد ہوئے پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ کے مصداق آزادانہ و منصفانہ شفاف انتخابات کی امید تھی۔ لیکن اس دن جو کچھ ہوا جو دیکھا جو سنا کچھ بھی نیا نہ تھا۔ لوگ گھروں سے کم نکلےجو نکلے ان بیچاروں کے امیدواروں ووٹوں پرڈاکہ ڈالا گیا کراچی میں دو سیاسی جماعتوں کا پلڑا بھاری تھا لیکن راتوں رات نتائج تبدیل کردیے گئے پہلے اور دوسرے نمبر پر جیتنے والے امیدوار منہ دیکھتے رہ گئے اور تیسرے، چوتھے، پانچویں نمبر والے امیدواروں کی کامیابی کا اعلان کیا گیا ۔ اگر سلیکشن ہی کرنا تھا تو الیکشن کا ڈھونگ کیوں رچایا گیا؟ کیوں قومی خزانے کا پیسہ ضائع کیا گیا؟ جبکہ ہر حکومت خزانہ خالی ہونے کا واویلا اور مزید قرض لینے کی کوشش کرتی ہے۔

اس الیکشن کے منظر نامے میں عوام کے آنے والے دنوں میں ملک کی تعمیر و ترقی کے سارےخواب بکھر گئے۔ ( دھاندلی والے) نتائج پر ایک تمثیل،:

راوی کی امید سحر کی کشتی سمندر میں ڈگمگارہی تھیؑ۔ کیوں ؟ اس لیے کہ سمندر میں ظلمت وجہالت کی آلودگی بہت زیادہ بڑھ گئی تھی کہ کشتی بار بار غوطے کھانے پر مجبور ہوئی لیکن وہ پھر بھی باز نہ آئی بھرپور قوت لگا کر بالآخر ساحل تک جا پہنچی لیکن وہاں پر موجود ہوس لالچ مادہ پرستی وموقع پرستی اور خود غرضی کے خطرناک مگر مچھوں نے گھیر لیا۔ وہ کنارے پر الٹا دی گئی۔ اس کے باوجود زخمی دل اور چھلنی جسم کےساتھ خود کو رکو نہیں تھمو نہیں کہ معرکے ہیں تیزتر کے عزم کے ساتھ از سر نو سمندر پار کرنے کی تگ و دو میں لگی رہی ( احتجاج ثبوتوں کے ساتھ انصاف کی طلب میں نکل پڑی امید ابھی کچھ باقی ہے۔ اسکا خیال ہے کہ امید کی روشنی شعور اور دانش کی کرنوں سے تا حد نگاہ وطن عزیز میں خیر ہی خیر ہوگی۔ راوی کی کشتی کا یہ ماننا ہے کہ

Try try again

Where there is a will there is a way.

No pain mo gain.

تو خاک میں مل اور آگ میں جل

جب خشت (راکھ)بنے تب کام چلے

یعنی اپنی ہستی کو مٹادےاگر کچھ مرتبہ چاہے

کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار بنتا ہے۔ یہ عزم کبھی اسے جھکنے دبنےاور ڈرنے نہیں دیتا مایوس ہرگز نہیں امید سحر سے ہم ۔

شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے

یہ چمن معمور ہوگا نغمہء توحید سے۔ ان شاءاللہ ۔ دراصل کسی بھی مشن یا کام میں کا میابی یا ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے صبر اور استقامت سے بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے بحیثیت مسلمان خلیفتہ الارض اللہ نے حق کے راستے کی جدوجہد ہم پرفرض کی ہے ہمیں اللہ کی زمین پر اللہ کا دین غالب کرنا ہے اس لیےہمیں ہمیشہ حق کا ساتھ دینا حق پر ڈٹے رہنا حق کو پھیلانا ہے ہمت اور حوصلے صبر و استقامت کے ساتھ ۔ ہمیں ہر حال میں یہ فرض ادا کرتے رہنا ہے اور ہم صرف کوشش کے مکلف ہیں نتیجہ جو بھی ہو۔ بس نیت خالص ہو جذبے صادق ہوں عزم توانا ہو ہمیں پورے اخلاص نیت کے سے ساتھ جدوجہد کرتے رہنا ہے۔ اس امید اور یقین کے ساتھ کہ سن شا اللہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب ہماری کوششیں با آور ہوں گی۔