ڈاکٹر صائب امارا لڑکا بچ جائے گا نا ؟ بزرگ خاتون نے آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ مجھ سے سوال کیا !
میں نے کچھ افسوس اور کچھ بے بسی کے جذبات سے ان کی طرف دیکھا اور کہا ” دعا کیجئے دعا میں بہت طاقت ہے ” وہ ایک دم سے پھوٹ پھوٹ کے رونے لگیں
میں نے انہیں تسلی دینے کے لئے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو وہ مزید زور زور سے رونے لگیں ساتھ ہی کہنے لگیں ” یہ بیٹا امارے بڑھاپے کا آ کھری سہارا اے ڈاکٹر ، اس سے پہلے اس کا والد اور اس کا بڑا بھائی بی اسی حالت میں دنیا چھوڑ کے گیا
بزرگ خاتون کی بات سن کر مجھے شاک لگا ‘ میں نے حیرت سے پوچھا ! اماں آپ کے شوہر اور بڑا بیٹا بھی اسی طرح نشے کی لت کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے تھے اور یہ بیٹا بھی نشے بازی میں پڑ گیا ؟
خاتون نے اثبات میں سر ہلایا ۔ افففف مجھے انتہائی دکھ ہوا ‘ میں نے پھر پوچھا کہ یہ کب سے نشہ کرتا ہے؟ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولیں ‘ یہ چودہ سال کی عمر سے نشہ کرتا اے اور اب چوبیس سال کا اے ۔
اتنی کم عمری سے آپ کا بیٹا نشہ کرتا ہے اماں جی آپ اپنے بیٹے کے لئے بہت دعا کیجئے کیونکہ اس کی حالت اچھی نہیں ہے اور آپ اسے لائیں بھی بہت دیر سے ہیں کچھ گھنٹے پہلے آجاتیں تو شاید کچھ امید بڑھ جاتی ، میں بہت بھاری دل سے بولا ۔
خاتون روتے ہوئے گویا ہوئی ڈاکٹر صائب ایسا مت بولو کل سارا رات ام امارا جوان بیٹیوں کے ساتھ اسے نشے کے اڈے ‘ نالوں کے پاس سنسان گلیوں میں ڈھونڈا اے تب یہ دوپہر بارہ بجے بہت دور ایک جوا اڈہ کے پاس سڑک پہ بے ہوش ملا ام اس کو پہلے اسی سرکاری ہسپتال لے گیا تھا جو امارے علاکے میں اے لیکن ان لوگ کا دل میں نرمی نئیں اے ہمدردی نئیں اے ان لوگ نے امارے لڑکے کو ابی تک بی نظر اٹھا کر نئیں دیکھا تھا امارا پڑوسی واجہ ام کو بولا اس کو ادر سے نکالو پرائیوٹ میں چلو یہ لوگ تمارے لڑکے کی پرواہ نئیں کرے گا’ ام اپنی دو جوان لڑکیوں کے ساتھ اس کو ایبولینس میں ڈال کر ادر لایا اس لئے ام کو دیری ہوا’
اماں آپ کی طرف کے سرکاری ہسپتال کا ایسا حال ہے اور آپ لوگ کسی سے ان کی شکایت نہیں کرتے ؟ وارڈ بوائے نے پھر سے لڑکے کا بی پی چیک کرتے ہوئے خاتون سے استفسار کیا۔
بیٹا ام لوگ کس کے پاس جاوے؟ آج کل امارا لوگ اسلام آباد میں حکومت نئیں کرتا اس لئے یہاں سرکاری ہسپتال کا یہ حال اے اماں جی نے بڑا حیرت انگیز جواب دیا ۔
وارڈ بوائے میری شکل دیکھنے لگا ، پھر دوبارہ بولا ! اماں آپ کی بات کا کیا مطلب ہے ؟
خاتوں کہنے لگیں بیٹا جب امارا لوگ اسلام آباد میں حکومت کرتا اے تو سرکاری ہسپتال صحیح کام کرتا اے اور جب امارا لوگو کے ساتھ ظلم کر کے ان سے حکومت چھین لیتے ایں تو ہسپتال کا لوگ ام کو ستاتا اے ۔
اماں آپ سے ایسا کس نے کہا ؟
ڈاکٹر صائب ام کو اماری پارٹی کے ورکر بتاتا اے اسمبلی میں بیٹھنے والا بتاتا اے کہ سب ام لوگو کے ساتھ ظلم کرتا اے ۔
اماں جی کی بات سن کر مجھے بہت حیرت ہوئی میں کہا اماں ! آپ کس علاقے سے آئیں ہیں یہاں ؟ اماں کے لہجے اور گھر کے تمام مردوں کے نشے میں مبتلا ہونے نے مجھے اسی فیصد یقین دلا دیا تھا وہ کراچی کے کس علاقے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن پھر بھی پوچھنا بہتر لگا ۔
ڈاکٹر! ام لیاری نوا لین میں رہتا اے
اوہ ، میرے یقین پہ پختگی کی مہر لگ گئی
میں نے کہا ! اماں جی آپ سے جس نے بھی ایسا کہا ہے بالکل غلط کہا ہے اسلام آباد کی حکومت سے لیاری نوا لین کے ہسپتال کے روئیے کا کوئی لینا دینا نہیں ہے ‘ کیا آپ کے شوہر اور بڑے بیٹے کا انتقال بھی اسی ہسپتال میں ہوا تھا اور اس وقت کیا آپ کی پارٹی کی حکومت تھی اسلام آباد میں؟
اور سب سے بڑی بات یہ اماں جی کہ جب آپ کے لوگوں کی حکومت ہوتی ہے تو کیا تب آپ کا علاقہ منشیات سے پاک ہو جاتاہے وہاں نشہ کرنے والوں کا علاج کروایا جاتا ہے آپ کے علاقے کی حالت سنورجاتی ہے اور سالہا سال سے جو منشیات اتنے انسانوں کو کھا چکی ہے اسے فروخت کرنے والے پکڑے جاتے ہیں؟ شاید مجھے غصہ آنے لگا جس پر قابو پانا انتہائی ضروری تھا اس لئے میں نے یہ سوال کر کے چہرہ کھڑکی کی طرف موڑ لیا
نئیں تو ڈاکٹر صائب آج تک ایسا کچھ نئیں ہوا امارا شوہر اور بیٹا دوسرا ہسپتال میں فوت ہوا تھا لیکن تب حکومت امارے لوگوں کا ای تا ‘ خاتون دھیمی آواز میں بولیں
اور اماں جی یہ آپ کے لوگ ہیں کون ؟ میں نے کنفرم کرنا ضروری سمجھا
اماں جی ایک دم جوش سے گردن اکڑا کر بولیں ! وہ ای جو آج تک زندہ اے جسے سولی بی نئیں مار سکا
اماں جی کی بات پر میں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور انسانیت کے سیکھے ہوئے سبق سے وفاداری نبھاتے ہوئے آخری الفاظ کہے ” اماں اپنے لوگ وہ ہوتے ہیں جو مصیبت پیدا کرنے کے بجائے مصیبتوں کا حل دیتے ہیں ‘ آپ لوگ سالہا سال سے اس منشیات اور گینگ وار کے عذاب کو بھگت رہے ہیں لیکن حالات کسی نے نہیں بدلے لیکن ایک بار آپ سوچ بدل کر اپنوں کی پہچان بدل کر دیکھیں اس بار الیکشن میں اپنے بچوں اپنے علاقے کے بچوں کے لئے میرے “ترازو والوں ” کو ووٹ دے کر دیکھیں اماں آپ یقینا مایوس نہیں ہوں گی ‘ اماں جی مجھے آپ کی تکلیف کا احساس ہے اور یہ احساس پیدا کرنے میں میرے ترازو والوں کا بہت بڑا کردار ہے اماں ترازو والوں کی تاریخ دیکھ لیجئے آپ کو انسان دوستی ‘ ہمدردی ‘ عوام کی خدمت بغیر سی صلے کے علاوہ کچھ نہ ملے گا نہ ہی عوام سے کوئی جھوٹ نہ دھوکا ملے گا ‘
اماں جی نے مجھے کھوجتی نظروں سے دیکھا اور بولیں ! بیٹا پہلا ایسا ڈاکٹر ملا اے جو اتنی محبت سے بات کرتا اے اور شاید یہ تمارا جماعت کا تربیت اے اسی وجہ سے ‘ لیکن بیٹا امارا وعدہ اے اپنے لیڈروں سے مرتے دم تک ان سے وفاداری کا، اس لئے ام کسی اور کو ووٹ نئیں دے سکتا امارا لوگ ایک دن لیاری کا حالات ضرور بدلے گا جب بی ان کو حکومت ملا ‘ اماں جی کھلی آنکھوں سے خود کو فریب دیتے ہوئے گویا تھیں ‘
اور میں ان کے بیٹے کے لئے بہتری کی دعا کرتے ہوئے اداسی سے وارڈ سے باہر نکل آیا مولانا ظفر علی خاں کے شعر کو زیر لب دہراتے ہوئے “
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا