ہا ں بولو ! مسلسل بجتی فون کی گھنٹی پر اس نے ریسیور اٹھا کر کہا
کیا بات ہے، بہت جلدی میں ہو، سانس بھی پھول رہا ہے کہاں سے بھا گتی آئی ہو نیہا اسٹارٹ ہو چکی تھی
کچھ نہیں بس آجکل کچھ مصروفیت زیادہ ہے فٹا فٹ کام نمٹا رہی تھی خیر تم بتا ؤ بڑے دن بعد میری یاد آئی صائمہ نے سکون سے جواب دیا
بھائی کی شادی کی ڈیٹ فکس ہو گئی ہے فروری کی 8 کو ان شاءاللہ نکاح ہے۔
ارے واہ یہ تو بہت اچھی خبر سنائی تم نے آنٹی کو، سب گھر والوں کو بہت بہت مبارکباد دینا۔
سوری اپنے کام خود کرو ویسے بھی امی خاص کر تمہارا پو چھ رہیں تھیں کہاں رہتی ہو کتنے ہی دنوں سے نہ فون کیا نہ گھر آئیں، بھائی الگ میرا ریکارڈ لگا رہا تھا کہ کہاں تو اتنی دوستی کہ دن میں دوپہر تک کالج میں ساتھ رہنے کے با وجود شام سے رات تک فون پر گھسی رہتیں تھیں محترمہ کا اب دور دور تک پتہ ہی نہیں لگتا ہے پھڈا ہو گیا ہے نیہا نے منہ بگا ڑ کر اسد کی نقل اتاتے ہو ئے کہا
خیر اس کو تو عادت ہے اول فول بو لنے کی صائمہ نے ہنستے ہو ئے کہا
اور اس دن کا بھی اسے انتظا ر ہے جب ہما ری دیرینہ دوستی کسی لڑائی کی نظر ہو جا ئے اور ان شاءاللہ اس کا انتظار، انتظار ہی رہے گا خیر میں نے تمہیں سب سے پہلے خوش خبری سنائی ہے اب ساری مصروفیات کو پیچھے ڈالو اور میرے سا تھ بازار جا نے کے لیے کمر کس لو، نیہا پر جوش تھی
وہ ایسا ہے نیہا کہ ابھی کچھ دن تو میرے بہت بزی ہیں اس کے بعد ہی تمہا رے ساتھ چل سکوں گی، صائمہ نے معذرت کرتے ہوئے کہا
ہیں میڈم اس کے بعد وقت ہی کیا رہ جا ئے گا اور پھر اصل مرحلہ تو دلہن کے عروسی جوڑے کا ہے مجھ کو تو پہلے ہی ڈر ہے کہ ایک ماہ میں کوئی برائڈل بنانے پر راضی ہو گا بھی یا نہیں، ملکی حالات سے تم واقف ہی ہو آئے دن کے ہنگاموں اور ہڑتالو ں کی وجہ سے بازار بند ہو جاتے ہیں ٹیلر کے نخرے الگ ایک ایک سوٹ سینے میں اتنے دن لگا دیتا ہے زیادہ اترانے کی ضرورت نہیں بجا ئے آگے بڑھ کر ذمہ داری لینے کے محترمہ فر ما رہی ہیں کہ ابھی بزی ہوں سیدھی طرح تیا ر ہو جاؤ میں۴ بجے تک پک کروں گی
بات سنو نیہا صائمہ نے اس کی فرا ٹے بھرتی زبان کو سخت لہجے میں روکتے ہو ئے کہا
تم اپنی ہی کہے جا رہی ہو میری نہیں سن رہیں ابھی تم نے ملکی حالات کا ذکر کیا تھا نا اب یہ وقت سب کاموں کو چھوڑ کر حالات کی بہتری کے لیے قدم اٹھا نے کا ہے
کس چیز کا وقت، کون ساقت، کیا کہہ رہی ہو نیہا جھلا گئی تھی
اٹھو خواب غفلت سے اب جاگ جاؤ
ہے وقت الیکشن، اب وطن کو بچاؤ
ذرا اپنے ووٹوں کی طاقت دیکھاؤ
جو سچے ہیں مسند پہ ان کو بٹھا ؤ۔۔۔۔۔۔ صائمہ نے ترنم سے کہا
اچھا نیہا نے اچھا کو خوب لمبا کھینچتے ہو کہا، کیا پدی کیا پدی کا شوربہ بھلا ہم گھر بیٹھنے والیاں کیا کر سکتے ہیں اور بات سنو بی بنو یہ
آپ جناب کو سیاست کا شوق کب سے پیدا ہو گیا اتنے بڑے سیاست دان کچھ نہیں کرسکے وہ ہم کریں گے واہ، نیہا نے طنز کیا
ہاں ان شاءاللہ ہم ہی کریں گے ہما رے پاس ووٹ کی صورت میں بڑی طا قت ہے ہم اس طا قت کا صحیح استعما ل کریں گے، ملکی حالات ہما رے سامنے ہیں، پچھلے ماہ وسا ل کو گزرے زیادہ دن بھی نہیں گزرے ہم آزمائے ہووں کو مزید آزما کر اپنے اوپر بد امنی، بیروزگاری، بھوک و افلا س، ٹارگٹ کلنگ کے مہیب بادل پھر سے نہیں لائیں انتخابات کی صورت میں پاک وطن کو معا شرے کو کرپشن سے بچانے کا جو زریں موقع ہا تھ آرہا ہے، اسے نہ جا نے دیں گے، ووٹ قومی امانت ہے، شہادت ہے اور اس شہا دت کو استعمال کر کے نا اہل فاسق و ظالم حکمرانو ں سے ملک کو بچائیں گے، صائمہ نے جوش و جذبے سے کہا
ہیں ہیں یہ بیٹھے بیٹھے خواب کب سے دیکھنے لگیں تم کیا سمجھتی ہو تمہارا ایک ووٹ ملک کی تقدیر بدل دے گا؟ پوترں کے بگڑے ہو ئے بھی کبھی لمحوں میں سدھرے ہیں ؟ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ دھا ندلی نہیں ہو گی، بو گس ووٹ نہیں ڈالے جائیں گے، من پسند نتائج نہیں لائے جائیں گے، عوام کو بے وقوف نہیں بنا یا جائے گا، اس ملک کے ساتھ اب تک یہی ہو تا آیا ہے نا، اسٹبلشمنٹ جسے چا ہے گی اقتدار بھی اسی کو ملے گا، یہ انتخابات تو بس ڈھونگ ہیں، خانہ پری ہیں اور مظلوم عوام کو بے وقوف بنانے کا ذریعہ بھی، نہ بابا نہ ووٹ ڈالنے کے لیے اپنی جان جو کھوں میں ڈالنے کا میرا تو کوئی ارادہ نہیں اور جب چہرے بدل کر وہی بدترین نظام سر پر مسلط کیا جانا ہے تو اپنی انرجی ویسٹ کرنے کا فا ئدہ، نیہا نے جھلا تے ہوئے کہا۔
انرجی ویسٹ کرنے کی بھی خوب کہی، خیر جب سے مجھ پر یہ ادراک ہوا ہے کہ ہمارے ووٹوں سے کامیاب ہو نے والا امیدوار اپنے پانچ سالہ دور میں جو بھی ایک نیک عمل یا بد عمل کرے گا ہم بھی اس کے شریک سمجھے جائیں گے، اگر خاموش رہے ووٹ نہیں ڈالا تو
گواہی کو چھپانے کے مر تکب ہوں گے اور کسی بھی نا اہل کو نمائندگی کے لیے جانتے بوجھتے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو درحققیقت جھوٹی شہادت دینے کے زمرے میں آتا ہے جو نہ صرف گناہ کبیرہ اور دنیا و آخرت کا وبال ہے بلکہ پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس کی گردن پر ہو گا تو جب سے ہی میں نے ووٹ ڈالنے کا عزم کر لیا تھا اور ذرا سو چو تو سہی کہ اسلام کا مزاج یہ ہے کہ اس کے دائرے میں ہر چیز اللہ ہی کے لیے کی جا تی ہے مسلمان جہاد کی صورت میں جنگ کرتا ہے تو صرف اللہ اور اس کے دین ہی کے لیے، امن قائم کرتا ہے تو صرف اسی کے لیے، کھانا کھاتا ہے تو اللہ کا نام لے کر، پانی پیتا ہے تو اللہ کو یاد کرکے، تو پھر جب دین قائم کرنے کے لیے چناؤ کا وقت آجا ئے تو اس کی اہمیت کو ہم کیوں نہیں سمجھتے، ہم یہ کیوں سوچتے ہیں کہ ایک ہمارے ووٹ سے کیا ہوگا یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہما را ایک ووٹ ہی کامیابی سے ہمکنار کر دے گا، رہی بات سیاست میں دلچسپی لینے کی تو اصل دلچسپی دین کے نفاذ کی ہے، معاشرے کی اصلاح کی ہے، جو صالح حکمرانو ں کے بغیر ممکن نہیں، بگڑے ہوئے معاشرے کو بہترین، چناؤ، کے ذریعے صالح قیادت کے سپرد کرنے کو اگر تم سیاست کہتی ہو تو یہ سیاست لازمی ہونی چاہیے کیونکہ جدا ہو دین سے سیاست تورہ جاتی ہے چنگیزی،،،،
اوکے یار تم نے تو بور کر دیا ہے، اتنی ثقیل باتوں نے تو میری ساری ایکسائمنٹ ہی ختم کردی ہے، بہرحال میں نے تو تمہیں شادی کی تیاریوں میں شرکت کی دعوت دینے کے لیے فون کیا تھا، جانتی ہو نا تمہا رے بغیر مجھے کچھ سوجھتا ہی نہیں اب میں کیا کروں، نیہا نے بے چا رگی سے کہا
ارے تو میں نے کب منع کیا ہے لیکن ابھی کچھ ہی دن باقی ہیں آؤ پہلے موجودہ بد ترین حالات کو سدھارنے کا عزم تو کر لیں اپنی دلچسپیوں کو اپنے اوقات کو قربان کرکے نیکی کا ساتھ دے کر خیر کو مضبوط کر لیں تو پھر ان شاءاللہ دائمی خوشیاں ہم سے دور نہیں ہو ں گی، صائمہ نے جذبا ت سے پر لہجے میں کہا
تو ووٹ کا اصل حقدار کون ہے، یہ کیسے پتہ چلے گا جب سے الیکشن سر پر آیا ہے ہر جا نب سے برساتی مینڈکوں کی طرح صدائے عام بلند ہو نے لگی ہے کہ ڈوبتے ملک کو اسی کی پارٹی بچائے گی تما م لوگ گلے پھاڑ پھاڑ کر اقتدار کے شیدائی بنے اپنی مدح سرا ئی اورحریفو ں کی مذمت میں مشغول ہیں، جن کی کبھی شکل نہیں دیکھی تھی اب وہ گلیوں میں جلوس کی شکل میں ایسے نظر آرہے ہیں جیسے یہی تو اصل قوم کے خادم رہے ہیں۔ ایسے میں کیسے پتہ چلے گا کہ اصل حکمرانی کا حقدار کون ہے، نیہا اب جلال میں آچکی تھی
دھیرج، یار دھیرج گلا تو نہ پھاڑو تم بالکل صحیح کہ رہی ہو اور یہ بہت اہم سوچ ہے کہ ووٹ جیسی گواہی کا اصل حقدار کون ہو تو اس کے لیے اپنا مطالعہ بڑھاؤ
کیسا مطالعہ، نیہا نے بات کاٹ کر بے صبری سے کہا
اب خاموشی سے تو سن لو، بتا تو رہی ہوں صائمہ نے جھلا تے ہوئے جواب دیا، بھئی تاریخ کا مطالعہ، پاکستان، دطن عزیز کا حصول کیا تھا؟
کس لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا تھا، اسلام، جمہوریت، اوراردو زبان قیام پاکستان کی تین بنیادیں لیکن ان کو غیر مؤثر کرنے کی کوششیں اول روز سے جاری ہیں اور آج تک سیکولر لابی نظریہ پاکستا ن کو سبوتاژ کرنے میں سرگرم عمل ہے، اسلام کے نام پر حاصل کیے جا نے والے ملک پاکستان میں مذہب ایک فیصلہ کن عامل ہے جس کا تشخص اور جس کا تحفظ پاکستان میں بسنے والے ہر مسلمان شہری پرواجب ہے جب تک تمام علوم و فنون کو اسلامی بنیا دوں پر مرتب نہیں کیا جا ئے گا اس وقت تک غلبہ دین کے تقاظے پورے نہیں ہو نگے منہ سے اسلامی نظام کی مالا جپ کر نظام نہیں بنتا اس کے لیے کار گذاری دیکھنی ہوگی، ملک میں رائج تعلیمی نظام دیکھنا ہو گا، عدا لتی فیصلے دیکھنے ہوں گے، پچھلی تمام حکومتو ں کی کارگذاریاں، ان کے کرتوت، ان کے دور حکومت میں مہنگائی، بدامنی قتل و غارتگری لوٹ کھسوٹ، بھوک افلاس سے مغلوب ہو کر معصوم شہریوں کی خود کشی کے بڑھتے واقعات کا گراف دیکھنا ہوگا، آسمانی، زمینی قدرتی آفات کے نتیجے میں وقت کے حکمرانوں کا طرزعمل یاد کرنا ہوگا، اور یہ بھی کہ کس جماعت نے حقیقتا خدمت کی عوام کے سکھ کے لیے اپنی جان مال وقت صلاحیتیں لگا دیں۔ خود سوچو!عوام کو بھوکا رکھ کر اپنے لیے وسیع تر دسترخوان سجانے والے حکمرانوں سے کیا بھلائی کی توقع کی جاسکتی ہے؟ آج کے نوجوان کل کے معمار ہیں ان کو کھیل، تما شے اور میڈیا کے ذریعے اپنے مقاصد سے غافل فاسٹ میوزک، فاسٹ فوٹ کا شیدائی بنا دیا ہے، بچوں کو تعلیم کے نام پر ان کے ذہنوں کو سیکو لر بنا یا جارہا ہے، ان کو اسلاف کی قربا نیوں سے غافل کر دیا گیا ہے ، وہ صلا ح الدین ایوبی، خالد بن ولید، ٹیپو سلطان سے انجان اور جیکی چن، بروسلی، اسٹیف سے واقف ہیں ان کو آئیڈیا لا ئز کرتے ہیں
دوستوں کے وفادار اور والدین کے نافرمان بچے اپنے آپ کو ہر قسم کی نصیحتوں سے بالاتر سمجھ کر خودرو پودوں کی مانند پروان چڑھ رہے ہیں، ان برگر بچوں سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے کہ ملک کی باگ ڈور صحیح طور پر سنبھال پا ئیں گے۔ اور سب سے بڑی بات فلسطین پر، کشمیر بوسنیا پر،۔۔ بولتے بولتے صائمہ کا سانس پھولنے لگا تھا
اچھا بابا اچھا تمہارا جوش خطا بت سن کر اب تو میرا دل بھی ووٹ ڈالنے کو مچل رہا ہے نیہا نے شرارتی لہجے میں کہا
مذاق نہیں نیہا، اب صائمہ روہانسی ہوچلی تھی، تم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لو تو اور بات ہے ورنہ یہ طے ہے کہ ووٹ اہم گواہی ہے اور اس سے رو گردانی رفتہ رفتہ ایسے خنجر میں تبدیل ہو جائے گی جو تمام ملک کے ساتھ ساتھ خود آپ کے اہل وعیال کے گلے تک پہنچ جائے گی اس لیے میری التجا ہے کہ کم سے کم ووٹ کے معاملے میں اپنی ذات کو سود و زیاں کے تمام تر تصورات سے بالا تر رکھ کر فیصلہ کرلو کہ ووٹ کی صورت میں شہادت ضرور دینا ہے اور جس کسی کا چناؤ کرو تو اس کے بارے میں ضرور چھان بین کر لو کہ اس کے با رے میں لوگوں کی رائے کیسی ہے اچھی یا بری ؟ وہ کرپشن میں تو ملوث نہیں رہ چکا؟ اپنے پڑوس رشتے دار کے ساتھ اس کا سلوک، اس کے محبوب مشاغل، اقتدار کے زما نے میں اس کا طرزعمل ، اس کا ذریعہ معاش حلال ہے یا حرام، سلطان جابر کے سامنے حق گوئی منکسرالمزاجی
اس کا مبلغ علم اور علم و مذہب کے اثرات اسکی نجی زندگی میں پا ئے جاتے ہیں، غرض ان تمام شرائط کے تحت فرد کا چناؤ ہی آپ کو اللہ کے یہا ں بری کروا سکتا ہے۔
ارے نہیں صائمہ میں تو تمہیں صرف تنگ کر رہی تھی، میرا مقصد تم کو ہرٹ کرنا نہ تھا، اللہ تمہارے جذبے کو قبول کرے، تم مجھے اپنے ساتھ ہی پاؤگی مگر یاد رکھنا کہ اس کڑے وقت کے گزرنے کے بعد تم نے پھر میرے کام کے لیے وقت نکا لنا ہے، نیہا کا لیجہ ملتجی تھا
صائمہ نے پرعزم لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔۔ہا ں کیوں نہیں، ہم کو سچی اور دائمی خوشیاں بھی تو حاصل کرنی ہیں نا۔