ذہن میں کئی بار یہ سوال اٹھا کہ ووٹ کس کو ڈالا جائے؟
بظاہر ہر سیاسی جماعت کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان رہی ہے اور پچھلے ایک سال سے سیاست کے نام پر جو تماشا اس ملک نے دیکھا ہے وہ آج سے پہلے کبھی تاریخ میں نہ دیکھا گیا۔ انصاف فراہم کرنے کے لیے رات بارہ بجے عدالتوں کے دروازے کھولے گئے۔ انتشار، ظلم، جبر، طاقت کا ناجائز استعمال، انصاف کے نام پر غیر منصفانہ فیصلے۔
ان حالات کے پیش نظر، گھروں سے نکلنا، ووٹ دینا سب بےسود لگتا ہے اور پھر ہمارا ایک ووٹ اس چھہتر سالا بگڑے نظام کو کیا ہی ٹھیک کرے گا؟ اور پھر بظاہر میچ تو ویسے بھی فکسڈ ہی معلوم ہوتا ہے۔
یہ سارا قیاس کرنے کے بعد ذہن کئی سو سال پیچھے لے گیا، آتش نمرود کو بجھانے کے لیے اس ننھی چڑیا کا خیال آیا جو اپنی چونچ میں پانی بھرتی تھی اور آگ کے اوپر ڈالتی تھی۔ اس ننھی جان کو اس بات کی پرواہ نہ تھی کے اس کے اس عمل سے کوئی فرق پڑے گا یا نہیں وہ اپنا حصہ ڈالنے میں مصروف تھی اس بات سے بےغرض کہ اس کی یہ کوشش کسی کام کی ہے بھی یا نہیں۔ پر ہاں ایک واضح فرق تھا جو اس کے اس عمل سے ظاہر ہوا کہ وہ حق کے ساتھ ہے اور باطل کے مخالف، وہ مایوس نہیں تھی، پر امید تھی، کیوں؟ کیونکہ اسے اس دنیا کے سب سے بڑے منصف کے عدل پر ایمان تھا۔
تو یہ فیصلہ ہوا کہ اپنا حصہ تو ڈالنا ہے چاہے اس سے کوئی فرق پڑے یا نہ پڑے۔ اگلا سوال یہ اٹھا کے اب ووٹ ڈالا کس کو جائے؟
چند باتیں جو ذہن نشین کرنی ہیں وہ یہ ہیں کہ آپ جس سیاسی جماعت کو بھی ووٹ دینے کا سوچ رہے ہیں اس کی کارکردگی آپ کے علاقے میں کیا رہی؟ یہاں ایک بات کا دھیان رکھنا ضروری ہے کہ وہ کارکردگی پچھلے تھوڑے عرصے میں فقط ووٹ کے حصول کے لیے تھی یا مستقل بنیادوں پر تھی۔
دوسری اہم چیز کہ اس ووٹ کا فائدہ آپکو ذاتی بنیاد پر ہوگا یا اجتماعی؟ کہیں ایسا تو نہیں کے جس شخص کو ووٹ دینے کا آپ فیصلہ کر رہے ہیں اس سے آپکے ذاتی فوائد منسوب ہوں۔
تیسری اہم چیز کہ کہیں آپ قومیتوں کی بنیاد پر تو ووٹ نہیں دے رہے کہ پٹھان، سندھی، مہاجر یا جس بھی قومیت سے آپ کا تعلق ہے آپ اس بنیاد پر ان سیاسی جماعتوں کا ساتھ دیں۔
جب تک ہم قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح نہیں دینگے تب تک وقت، حالات نہیں بدلیں گے۔ جب تک یہ ملک، ایک قوم نہیں بنے گی نظارہ تبدیل نہیں ہوگا۔
قومی سطح پر یہ دیکھنا ہے کہ ہماری شناخت بین الاقوامی طور پر کس حیثیت سے کروائی گئی ہے؟ ہمارا تعارف کن پیراوں پر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے؟ حق کی آواز ذرا کڑوی ہوتی ہے، حق بات کہنا ور حق کا ساتھ دینا دشوار کن بھی ہوتا ہے لیکن جیت آخر میں ہمیشہ حق کی ہی ہوتی ہے اور باطل تو ہے ہی مٹ جانے کی چیز۔
امید نہیں چھوڑنی، مایوس نہیں ہونا، اپنا حصہ ڈالنا ہے بھلے وہ کوئی تبدیلی لے کر آئے یا نہیں۔ حالات بدلیں گے کیوں کہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو چھٹ جاتا ہے۔
میں تو ووٹ دینے نکلوں گی گھر سے اور آپ ؟