احمد: ارے جمیل، یہ تیار ہو کر سویرے سویرے کہاں چلے؟
جمیل: (چہکتے ہوئے) جلسے میں۔ نعرے لگائیں گے، تھوڑا ہلا گلا کریں گے اور پھر بریانی سے پیٹ پوجا کر کے آئیں گے۔
احمد: یار کبھی سنجیدگی سے بھی کوئی کام کر لیا کرو، ہر وقت کھیل تماشے یا مفت کی دعوتیں اڑانی۔
جمیل: تو کیا کروں، جب کوئی نوکری نہیں ملتی، کاروبار کے لئے پیسے نہیں تو کیا گھر بیٹھ کر مکھیاں مارتا رہوں۔
احمد: دیکھو نوکری تو میرے پاس بھی نہیں پر تمہاری طرح آوارہ گردی تو نہیں کرتا پھرتا۔
جمیل: ہاں تو تمہاری طرح جا جا کے مصیبت زدگان کی خدمت کے لئے پیکنگ کرواؤں، مفت کا لوڈر، ڈرائیور بن جاؤں، اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر سیلاب کے پانی میں ڈوب جاؤں یا آگ میں کود جاؤں ؟
احمد: ہر کام دنیاوی مفاد کے لئے نہیں کیا جاتا۔ بے سہارا و مجبور لوگوں کی مدد سے کیا دلی سکون حاصل نہیں ہوتا؟ اللہ کی مخلوق کی خدمت، اللّہ کا کام ہے۔
جمیل: (تیزی سے پاس گذرتے ہوئے موٹر بائیک کے ڈرائیور پر چیختے ہوئے) اوئے رکو! بد تمیز انسان، کیچڑ اڑاتا ہوا چلا گیا۔
سارے کپڑوں کا ستیاناس کر دیا۔
احمد: یہ گاڑی والوں کا قصور نہیں۔ جب گلیاں گٹر کے پانی سے بھریں گی تو چھینٹوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے
جمیل: پانی کا مسئلہ، بجلی کا مسئلہ، گیس اور گٹر لالئنوں کا مسئلہ۔ کون ہے ہمارا پرسان حال ؟
احمد: مفاد پرست لوگوں کے جلسے جلوس میں جا کر، مفت کی بریانی قورمے کھا کر تم جیسے ہی ایسوں کو ووٹ دیتے ہیں جنہیں جھوٹے وعدوں کے علاوہ کچھ کروانا ہی نہیں ہوتا۔
جمیل: (لاپرواہی سے) ٹینشن سے بچنے کے لئے چند لمحوں کی تفریح تو دے دیتے ہیں کم از کم۔
احمد: وقتی خوشی کی خاطر زندگی بھر کی ٹینشن کیسے قبول کر لیتیے ہو؟ دیکھو یار زندگی کوئی ہلے گلے کا نام نہیں ہے۔ اچھےمستقبل کے لئے تگ ودو تو کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے انفرادی مسائل ملک کے نظام سے جڑے ہیں۔ ہم اکیلے مسائل کا حل تلاش نہیں کرسکتے۔ اس کے لئے ہمیں ایسی جماعت سے جڑنا ہو گا جو فلاحی و سماجی کاموں میں نیک نیتی سے اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ ان کاساتھ دینے سے ملک میں خوشحالی لائی جا سکتی ہے، تب ہی ہم بھی روشن مستقبل کی امید کر سکتے ہیں ۔
جمیل: بے شک جماعت اسلامی یہ سب کام آگے بڑھ کر خلوص نیت سے کرتی ہے پر حکومت تو ان کو پھر بھی نہیں ملتی۔
احمد: تو بھائی میرے ، میں تم کو یہی تو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ان کا ساتھ نہ دینے کا قصور تو اپنا ہی ہے نا۔ تمھارےسامنے کتنے فلاحی کاموں میں یہ پیش پیش ہوتے ہیں۔ مظلوم عوام کے لئے یہی آواز اٹھاتے ہیں۔ سوچو اگر ان کی حکومت ہو توقوم کی تقدیر بدل جائے۔
جمیل: )متفق ہوتے ہوئے( ہاں بات تو ٹھیک ہے پر لوگ ووٹ ایسوں کو دیتے ہے جن کی کمزوریاں ان کے سامنے ہوتی ہیں، پھربھی اچھے لوگوں کو ان پرانے سیاست دانوں کا متبادل نہیں مانتے۔
احمد: لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ نیک لوگوں کا کام اللّہ اللہ کرنا ہے، سیاست میں ان کا کیا کام۔ اب ان کی سوچ بدلنا با شعور لوگوں کاکام ہے۔ جماعت کی دیانتداری، خدمت اور خلوص سے کسے انکار ہے؟
جمیل: ہاں اس بات سے تو انکار نہیں پر یار خالی خدمت خلق سے تو کام نہیں چل سکتا نا۔
احمد: دیکھو ہمارا کام کوشش کرنا، حقدار کو اس کا حق دینا اور امانت میں خیانت نہ کرنا ہے۔ باقی نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا۔ وہی ان شاءاللہ کوئی نا کوئی وسیلہ پیدا کر دیتا ہے۔
جمیل: اس میں کوئی شک نہیں۔
احمد: کیا تمہیں معلوم ہے کہ اب ہمارے علاقے میں بھی جماعت اسلامی کے مفت آئی۔ٹی کورسز شروع ہو رہے ہیں جہاں بلا سفار ش و رشوت کامیاب باصالحیت نوجوان کو نوکری بھی دی جائے گی۔ میں اپنا نام رجسٹر کروانے وہیں جا رہا ہوں۔ کیا خیال ہے ساتھ چل رہے ہو؟
جمیل: (مسکرا کر اپنا ہاتھ احمد کے ہاتھ میں دیتے ہوئے)چلو چلتے ہیں۔