موسم سرما اور شوگر کے مریض

ذیابیطس ایک ایسی طبی حالت کا نام ہے جس میں کسی بھی مریض کی اپنے خون میں گلوگوز کی سطح کو کنٹرول کرنے کی قدرتی صلاحیت اس حد تک متاثرہو چکی ہوتی ہے کہ اس کا  بلڈ شوگر لیول اکثر بہت زیادہ یا بہت کم ہو جاتا ہے۔ بطور انسان ہماری خوراک میں کاربو ہائیڈرٹیس یا نشاستے، چکنائی اور پروٹین سبھی کچھ شامل ہوتا ہے۔ وہ جسمانی عمل جو ان غذائی اجزا کو توانائی میں تبدیل کر کے ہمارے جسم کا حصہ بناتا ہے اسے میٹا بولزم کہتے ہیں۔

جن بیماریوں کا تعلق میٹا بولزم سے ہوتا ہے انھیں میٹا بولزم  بیماریاں کہتے ہیں، ذیابیطس یا شوگر بھی ایک میٹا بولک بیماری ہے جو کسی بھی مرد یا عورت کے جسم میں کاربوہائیڈریٹس کے میٹا بولزم کو متاثر کرتی ہے۔ انسان کا لبلبہ خون میں شوگر کی مقدار کو کنٹرول کرنے کے لئے ایک ہارمون بناتا ہے جسے انسولین کہتے ہیں ۔ ذیابیطس کے مریضوں میں لبلبہ انسولین یا تو بالکل بنانا بند کر دیتا ہے یا ناکافی مقدار میں بناتا ہے جس کی وجہ سے مریض کو  ادویات اور انسولین کے انجکشن لگانا پڑتے ہیں اور خون میں شکر  کی مقدار کو کنٹرول کرنا پڑتا ہے۔

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں سب سے بڑے ملک پاکستان میں ذیابیطیس کا مرض بہت تیزی سے پھیل رہا ہے کہ اب تقریبا  ہر بالغ پاکستانی اس بیماری کا شکار ہو چکا ہے اور یہ مرض ایک خاموش قاتل بن چکا ہے ۔ بین الاقوامی  ذیابیطس فاؤنڈیشن یعنی ( آئی ڈی ایف )  کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں عام لوگوں کے طرز زندگی اور غذائی عادات کے باعث سن دو ہزار اکیس میں اس مرض نے چالیس ہزار سے زائد پاکستانیوں کی جان  لے لی۔

پاکستان کی آبادی میں بالغ شہریوں کی تعداد تقریبا ایک سو چوبیس ملین بنتی ہے لیکن ان میں سے تینتیس ملین ذیابیطس کی کسی نہ کسی قسم کے مریض ہیں۔ بدلتے ہوئے موسم کے لحاظ سے شوگر کے مریضوں کو اپنا زیادہ خیال رکھنا چاہیے کیونکہ پاکستان میں موسم شدید نوعیت کا ہوتا ہے اب وہ خواہ سردی ہو یا گرمی، ایسی صورتحال میں شوگر کے مریضوں کو متوازن اور صحت بخش غذائوں کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ انھیں ضروری غذایئت اور توانائی فوری طور پر حاصل ہو سکے اور وہ اپنی شوگر کو قابو میں رکھ سکیں۔

سردیوں میں سبز پتوں والی سبزیاں خاص طور پر پالک، سرسوں کا ساگ،  پھلیاں، بروکلی وغیرہ ایسی غذائیں ہیں  جو صحت بخش بھی ہیں اور توانائی سے بھر پور بھی ۔ ان سبزیوں میں فائبر زیادہ ہوتا ہے جو کہ  شوگر کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتا ہے۔ سبزیاں کھانے سے پیٹ جلدی بھر جاتا ہے اور اس سے مریض بہت دیرتک بھوک سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

 پھلوں کی بات کریں تو اسٹرابیریز، بلیو بیریز ایک اچھا انتخاب ہیں، ان میں شکر کی مقدار کم ہوتی ہے شکر قندی میں قدرتی طور پر مٹھاس پائی جاتی ہے لیکن اس کا معتدل استعمال بہتر ہے۔ شکر قندی کو ابال کر، بیک کر کے یا بھون کر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ شوگر کے مریض سیب، امرود، چیکو، سنگترہ، گریپ فروٹ بھی کھا سکتے ہیں جن سے انھیں مختلف وٹامنز اور منرل حاصل ہوتے ہیں تاہم کیلا ، آم اور انگور شوگر کے مریضوں کے لئے بہتر نہیں اور انھیں کم و بیش ہی کھانا چاہیے۔

سردیوں میں خشک میوہ جات جیسے بادام، اخروٹ، مونگ پھلی،  پستہ اور کاجو وغیرہ کھائے جا سکتے ہیں لیکن ان کی تعداد بھی مٹھی بھر ہونی چاہیے اور انھیں بہت زیادہ مقدار میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ روٹی کے لئے آٹا ہمیشہ بغیر چھنا ہوا استعمال کریں جو کا دلیہ بھی ایک بہت اچھا آپشن ہے، دودھ کی بالائی، کریم فیٹ دودھ ذیا بیطس کے مریضوں کے لئے بہتر نہیں لیکن ڈیری  کی تمام اشیاء کو نظر انداز کردینا درست نہیں، کم بالائی والا دودھ، دہی، پینر ایک حد میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یاد رکھئیے کہ  شوگر کو بہتر انداز سے کنٹرول کرنے کے لئے سب سے ضروری یا اہم قوت ارادی اور اپنے لائف سٹائل کو تبدیل کرنا ہے تاکہ اس بیماری کے ساتھ بھی صحت مندانہ زندگی گذاری جا سکے۔