چھولے ابالنے رکھ دے حلیمہ کل بھی گاہک شکایت کر رہے تھے چھولے کچے ہیں۔
رحیم نے بیوی سے سوال کیا ! کیا کروں گیس نے اتنا پریشان کیا ہوا ہے پورا دن بھی آتی ہے اب رات میں ابالوں تو رات میں بھی غائب ہو جاتی ہے۔ حلیمہ نے چھولوں کے پتیلے کے نیچے چولہا جلایا اور بچوں کے کپڑے سینے بیٹھ گئی۔
رحیم چھولوں کی چاٹ بیچتا اور حلیمہ محلے کے بچوں کے کپڑے سیتی تھی گھر کی گاڑی کسی نہ کسی طرح چل رہی تھی جوان بیٹی کی شادی کی عمر تھی بس اس کے لئے جمع جوڑ کی کوشش کر رہے تھے مگر أج کل تو گیس نے ہی تنگ کر رکھا تھا۔
سلائی کرتے ہوئے حلیمہ کی کمر میں درد ہونے لگا اس نے سوچا ذرا دیر لیٹ جاؤں پھر اٹھتی ہوں مگر پتا ہی نہ چلا سارے دن کی تھکن سے کب آنکھ لگ گئ۔
فجر میں بیٹی سب سے پہلے اٹھتی اور ابا کے لئے چائے کا پانی چولھے پر رکھ کر انہیں اٹھاتی اس نے جیسے ہی ماچس جلائی ایک دھماکا ہوا اس کی چیخوں سے اماں اور ابا بھاگے أئے اماں ہاتھوں سے ہی أگ کے شعلے جو اس کے جسم کو لپٹے ہوئے تھے بجھانے کی کوشش کڑنے لگی جس کے نتیجے میں آگ نے اس کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جب تک رحیم انہیں ہسپتال لے کر پہنچا دونوں اسی فیصد تک جل چکی تھیں اور پھر دونوں ماں بیٹیاں زندگی کی بازی ہار گئیں۔
رحیم بیٹی کی میت کے پاس آیا تو اس کی آنکھیں کھلی رہ گئیں تھیں اور ان میں بہت سے سوال تھے
ابا اس شہر کےحکمرانوں سے پوچھنا ضرور میں تو اپنی بیٹی کی ڈولی اٹھانا چاہتا تھا مگر تم لوگوں کی بے حسی کی وجہ سے اس کی لاش کا ڈولا اٹھا رہا ہوں ابا تم تو الیکشن والے دن صبح سب سے پہلے ہمیں ساتھ لے جا کر ووٹ ڈلواتے تھے اب کہاں ہیں وہ سارے بڑے بڑے سیاست دان جو ہم غریبوں سے وعدے کر کے جاتے تھے اور رحیم کے پاس بے جان آنکھوں سے جھانکتے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا اس لئے اس نے بیٹی کی أنکھوں پر ہاتھ رکھ کر انہیں بند کر دیا۔