مسند اقتدار پر نیک و صالح لائیے۔
جویریہ ہاتھ میں چائے کا کپ لئے گم صُم بیٹھی تھی۔
کیا بات ہے۔کیوں پریشان ہو۔۔؟ بشری نے اسکی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا۔
جویریہ نے چونک کر دیکھا۔
آں ۔۔ہاں۔۔ اسی لئے تو تمہارے پاس آئی ہوں۔۔ سمجھ نہی آرہا کیا کروں۔۔؟؟۔۔اس نے کہا۔
کیا ہوا۔۔۔؟؟ بشریٰ نے پوچھا۔
جویریہ، بشری کی ہمسائی بھی تھی۔۔اور بہتریں سہیلی بھی۔۔دونوں آپس میں ایک دوسرے سے مسائل شیئر،مدد کرتیں تھیں۔
دودن پہلے میں رات میں کافی بناکر کمرے میں لے گئی۔ میرے شوہر ٹی وی دیکھ رہے تھے۔
ڈیٹول سوپ کا اشتہار چل رہا تھا۔۔ اتنا بےہودہ لباس پہنے نیم عریاں ماڈل گرل۔۔ مجھے تو سخت غصہ آیا ۔۔ میں نے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی بند کردیا۔
عدنان نے مجھ سے ریموٹ چھین کر ٹی وی دوبارہ کھول لیا۔۔ کہنے لگے۔۔ میں خبر نامہ دیکھ رہا ہوں۔
جویریہ بشریٰ کو بتاتے چپ ہوئی تھی۔
پھر۔۔ بشریٰ نے پوچھا۔
میں نے کہا۔۔ جب یہ فضول کمرشل آئیں تو چینل بدل دیا کریں۔
انہوں نے مجھے غصہ سے دیکھا۔۔ اب وہ ناراض بھی ہیں۔
وہ روز دو گھنٹے ٹی وی کے آگے بیٹھے رہتے ہیں۔
اور ہر تھوڑی دیر بعد اشتہارات میں نیم عریاں عورتیں آرہی ہوتی ہیں۔
اور میرا خون کھول رہا ہوتا ہے۔
ہوں۔۔۔ بشریٰ نے اسکی بات سن کر ٹھنڈی سانس لی۔
تو تم بھی روز اپنے شوہر کے آنے سے پہلے تیار ہوکر بیٹھا کرو۔۔ یوں سر جھاڑ، رہتی ہو۔
بشریٰ نے جویریہ سے کہا۔
ہاں ۔۔۔ کہنا بہت آسان ہے۔۔۔ دل تو میرا بھی بہت چاہتا ہے۔۔ فلمی ہیروئن کی طرح بن کر رہوں۔۔ مگر ہمارا جوائنٹ فیملی سسٹم ہے۔۔ ہر وقت ساس کی نگرانی۔۔ جیٹھ، دیور سب گھر میں ہوتے۔۔ میں کیسے میک اپ۔ تیار ہوکر بیٹھوں۔۔ بچے کو سنبھالنا۔۔ دن میں بھی گھر کے کام۔۔۔ رات کو سارے برتن دھونا،کچن صاف کرنا بھی میرے ذمے۔۔ تھکن سے حال برا ہوجاتا ہے۔۔ جویریہ نے کہا تھا۔
ہاں یہ تو ہے۔۔ بشریٰ نے کہا تھا۔
اور میں تیار بھی ہو جاؤں تو بھی ان ماڈل گرل کی طرح تو بن نہیں سکتی۔۔ جیسے ٹی وی پر وہ، خوبصورت، چمکتی دمکتی دکھائی جاتی ہیں۔۔؟ ہر دوسرے کمرشل میں نیم برہنہ عریاں ، اچھلتی، ڈانس کرتی عورتیں۔۔ دکھاتے ہیں۔۔ یہ کیا ہماری تہذیب و ثقافت ہے۔؟
جویریہ نے غصہ سے کہا تھا۔
ارے۔۔ وہ تو سارا کیمرے کا کمال ہوتا ہے۔۔ اور ماڈل گرل چند پیسوں کے لئے۔۔ یہ سب کرتی ہیں۔ ہم عورتیں اپنے خاندان کو بنانے کے لئے محنت، مشقت، مجازی خدا کے نخرے برداشت کرتی ہیں۔۔ اصل حسن تو یہ ہے۔
تم بھی اپنے شوہر کے آنے سے پہلے تیار ہوکر رہا کرو۔۔ یہ تم۔ اپنی مجازی خدا کے لئے کرو گی۔
بشریٰ نے ہنس کر کہا تھا۔
میڈیا پر یا جو بھی معاشرے میں بے حیائی پھیلتی، پھلتی پھولتی جارہی ہے۔۔ اس کے لئے ملک کی باگ دوڑ، اقتدار ایسے متقی، صالحین کو منتقل کیا جانا چاہئے۔ جو بے حیائی، فحاشی، بدعنوانی کے نظام کو تحفظ دینے والے نہ ہوں۔ بلکہ پوری طاقت سے روکنے، ختم کرنے والے ہوں۔۔۔ ہم نے۔۔ تینوں بڑی جماعتوں کااقتدار۔ دیکھ لیا۔ مہنگائی، بےروز گاری، بےحیائی بڑھتی رہی۔ اب جماعت اسلامی کو ہی اقتدار ملنا چاہئے۔ وہ ہی بے حیائی بدعنوانی کاخاتمہ کرسکتے ہیں۔ بشریٰ نے کہا !
ہاں۔۔ ٹھیک ہے۔۔ جویریہ نے تائید کی تھی۔