چمچے کہاں چلے گئے سارے؟
ثمینہ نے کچن میں برتنوں کےاسٹینڈ، سے چمچے ڈھونڈتے غصہ سے کہا تھا۔
میری بہن۔۔ سارے چمچے بڑے پاپا کے پورشن میں ہیں۔۔
ثانیہ نے بتایا۔۔
کیوں، کیسے، کس لئے۔؟؎
ثمینہ نے تیوری چڑھا کر پوچھا تھا۔۔
بریانی کے لئے، لب شیریں کے لئے ڈالرزکے لئے۔۔۔ اور زر زمین کے لئے۔
ثانیہ نے جواب دیا تھا۔
اوہ۔۔۔ چمچے نہی، نہ سہی۔۔ ہمارے ہاتھ اور ایمان سلامت رہے،
آو کھانا کھاؤ۔
ثمینہ نے مٹر چاول نکالے۔
مجھے بھوک نہی ہے۔ ثانیہ نے جوا دیا۔
تمھارے سر پر الیکشن سوار ہوگئے۔ ؟
ثمینہ نے بہن سے کہا تھا۔۔
الیکشن نہیں۔۔ سلیکشن کی فکر ہے۔
100 دن ہوگئے غزہ پر بمباری،حملے کو اور ہماری بےبسی اور حکمرانوں کی بےحسی۔
ثانیہ نے افسردگی سے کہا تھا۔
یہ نظام کب بدلے گا۔۔ کب وہ مسلم حکمران مسند اقتدار پر متمکن ہوں گے۔۔ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہُ، سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃاللہ علیہ جیسے ہوں۔ عوام کی خبر گیری، فکر کرنے والے۔
ثمینہ خاموشی سے کھانا کھاتے سن رہی تھی۔
یہ بجلی کی آنکھ مچولی، گیس، پانی کی کمی، تعلیمی نظام کی بربادی، کچرے کے ڈھیر، ابلتے گٹر، مہنگائی، بےروزگاری۔ چوری، ڈکیتی، سودی نظام اور آئی ایم ایف کی غلامی۔
ارے ! اب بھی ہم پر وہی لوگ مسلط کردیے جائیں گے۔۔؟؟
جو اقتدار میں اکر وی آئی پی پروٹوکول لیتے ہیں۔۔ جائیدادیں بناتے اور عوام کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھتے ہیں۔؟؟
وہ جذبات میں بولتی۔۔ خاموش ہوئی تھی۔
ہوں۔۔۔! ثمینہ نے بہن کو دیکھا تھا۔
حق کوتو غالب ہونا ہے۔ مہلت اب کم ہے۔
یہ لٹیرے اور چمچے تو۔۔ امریکہ، لندن، دبئی۔۔ بھاگ جائیں گے۔
ہم یہاں ہیں۔۔اور ہم ہی رہیں گے۔۔
حق کی خدمت، سربلندی کے لئے کمربستہ۔۔عوام کے حقوقِ کی جنگ لڑتے۔۔کے الیکٹرک کا ظلم و ذیادتی ہو۔مغربی آقاؤں کے حکم پر۔۔،بل پاس کئے جائیں۔،ملکی مفادات سے متصادم قانون سازی ہو۔۔باطل قوتوں کو بے نقاب کرتے ۔ فلسطین غزہ کے حق میں مظاہرے۔ کرتے ہیں۔۔ثمینہ نے کہا۔۔
ہاں ڈاکٹر عافیہ کی بہن سے ملاقات کرائی، رہائی کی بھی جماعت کے سینیٹر مشتاق احمد نے کوشش کی ہے۔۔۔ثانیہ نے تائید کی۔۔
میری بہن۔۔ نہ غم کرو۔۔نہ مایوس ہو۔۔ہم اپنا ووٹ، جراءت و حمیت، عدل و انصاف، ترازوکے پلڑے میں ڈالتے رہیں گے۔۔
ظلم وجبر سے نجات کے لئے جدو جہد کرتے رہیں گے۔۔جو کبھی رائیگاں نہیں جائے گی۔۔ثمینہ نے مسکرا کر کہا تھا۔۔
معرکے ہیں تیز تر۔۔
روشن صبح قریب ہے۔۔