پاکستان کی سیاست یہ سارنگی اور یک رنگی ہے۔یہ سکے کے دو رخ ہیں جو متضاد بلکہ متصادم ہیں؛ کیونکہ یہ ایک دوسرے پر پلٹی کھاتے رہتے ہیں۔ویسے تو یہ سیاسی کھیل کی سہ رنگینیاں پاکستان کی آزادی کے بعد ہی شروع ہو گئیں تھیں لیکن کھلے عام طور پر 1988 میں واضح ہونے لگیں جب ضیاء الحق صاحب پاکستان کے صدر تھے، اس سے پہلے کی تاریخ کتابوں میں پڑھی اور لوگوں سے سنی ہے، لیکن اس کے بعد کی بہت ساری تاریخ مطالعہ سے ابھی بھی ذہن میں محفوظ ہے، 14 اگست 1988 کو جنرل ضیاء الحق نے قوم سے خطاب کیا اور 17 اگست کو بہاولپور کے قریب ان کے جہاز کا حادثہ ہو گیا اور وہ اپنے قریبی ساتھیوں سمیت دنیا سے رخصت ہوگئے، 1988 میں ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہوا تو سب کو معلوم تھا کہ حکومت پیپلز پارٹی کی بنے گی، وہی ہوا اور محترمہ بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم بن گئیں ، ابھی دو سال بھی نہیں گزرے تھے، صدر غلام اسحاق خان نے حکومت کو چلتا کر دیا اور 1990 میں عام انتخابات کا اعلان ہو گیا، اس بار سب کو معلوم تھا کہ IJI یعنی اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت آئے گی، پوری فیلڈ بچھائی گئی اور 1990 میں میاں نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بن گئے، اس وقت صدر مملکت کے پاس اسمبلی توڑنے کا اختیار تھا سو زیادہ بھاگ دوڑ کرنے کے بجائے صدر صاحب کے ذریعے کاروائی ڈالی جاتی تھی، صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی اسمبلی بھی توڑ دی، لیکن سپریم کورٹ نے صدر مملکت کے الزام مسترد کر کے میاں نواز شریف کی حکومت بحال کر دی، مگر معاملات سنبھل نہ سکے اور 1993 میں پھر عام انتخابات ہوئے، سب کو معلوم تھا کہ حکومت پیپلز پارٹی کی آئے گی سو وہی ہوا اور 1993 میں بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیراعظم بن گئیں۔
ان سب حالات کے ساتھ بہت سارے واقعات جڑے ہوئے ہیں، بے نظیر بھٹو کے دور میں 1996میں ان کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کراچی میں قتل ہوئے، یہ بہت آسان کیس تھا، ایک SHO نے مرتضیٰ بھٹو پر گولی چلائی تھی، معلوم صرف یہ کرنا تھا کہ حکم کس نے دیا لیکن ہمارے انصاف کا معیار ملاحظہ فرمائیں کہ وہ کیس آج تک حل نہیں ہو سکا، اس SHO نے بھی مبینہ طور پر پولیس حراست میں خودکشی کر لی اور بات ختم ہوگئی، مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد بے نظیر حکومت کو بھی گھر بھیج دیا گیا اور 1997 میں پھر عام انتخابات ہوئے، سب کو معلوم تھا کہ ن لیگ جیتے گی اور وہی ہوا اور ن لیگ نے دو تہائی اکثریت حاصل کر لی، نواز شریف دوسری بار وزیراعظم بن گئے، ن لیگ نے صدر کا اسمبلی توڑنے کا اختیار 58.2b بھی ختم کر دیا، پیپلز پارٹی صرف 17 سیٹ جیت سکی، تحریک انصاف نے پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لیا، سیٹ کوئی نہیں ملی، مولانا اعظم طارق شہید کو بھی قومی اسمبلی کا الیکشن ہروا دیا گیا مگر وہ دھاندلیوں کے باوجود صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیت گئے، وقت گزرا صدر رفیق تارڑ اسمبلی نہیں توڑ سکتے تھے، سو اس بار پرویز مشرف نے دوسرے طریقے اختیار کئے، دو تہائی اکثریت تھی، مشرف کے منصوبے ناکام جا رہے تھے، نواز شریف مشرف کے منصوبوں سے واقف تھے، مشرف سری لنکا کے دورے پر گئے تو نواز شریف نے آرمی چیف تبدیل کرنے کی کوشش کی، لیکن کور کمانڈرز نے مشرف کو بچا لیا اور 1999 میں نواز شریف کو حکومت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے اور خاندان سمیت جلاوطن ہونا پڑا، مشرف نے اقتدار سنبھالا، 2001 میں بلدیاتی انتخابات کروائے، اپنے ناظمین وغیرہ لا کر 2002 میں عام انتخابات کا اعلان کر دیا، اس بار سرکاری پارٹی ق لیگ تھی، بڑے بڑے لوگ جوق در جوق ن لیگ کو چھوڑ کر ق لیگ جوائن کر رہے تھے، پیپلز پارٹی میں سے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنا دی گئی تھی، سرکاری چھتری میں مجلس عمل بھی قائم ہوئی، ق لیگ کی حکومت بنی، مجلس عمل بظاہر اپوزیشن میں تھی لیکن ق لیگ اور مجلس عمل نے مل کر مشرف کے تمام غیر آئینی کاموں کو LFO کے ذریعے آئینی تحفظ فراہم کر دیا، عمران خان پہلی بار اسمبلی پہنچے تھے، میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم تھے، وزیراعظم تو اپنی مدت پوری نہ کر سکے لیکن اسمبلی نے مدت پوری کی، شوکت عزیز کو امریکا سے لا کر پاکستان کا وزیراعظم بنا دیا گیا، وزیراعظم بنانے کے لئے انہیں پاکستان کا شناختی کارڈ بھی بنا کر دیا گیا، لال مسجد، اکبر بگٹی، ڈرون حملے، چیف جسٹس افتخار چودھری کی برطرفی اور عافیہ صدیقی کے کیسز نے پرویز مشرف کو کمزور کیا۔
2008 میں عام انتخابات ہونے تھے، مشرف ق لیگ کو جتانا چاہتے تھے، لیکن 27 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو کو انتخابی جلسے میں تقریر کے بعد راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا، حالات تبدیل ہوگئے، کاغذات نامزدگی جمع ہو چکے تھے، انتخابی مہم جاری تھی، عمران خان اور جماعت اسلامی بائیکاٹ پر تھے، بے نظیر کے قتل کے باوجود پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ نہیں کیا کیونکہ پیپلز پارٹی 1985 میں بائیکاٹ کا تلخ تجربہ کر چکی تھی، اس لئے اس نے بائیکاٹ نہیں کیا، بے نظیر کے قتل کی وجہ سے پی پی ووٹرز متحرک تھے، یہ الیکشن پیپلز پارٹی متحرک ووٹرز اور مشرف کی نفرت کی وجہ سے جیت گئی، یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بن گئے، لیکن مدت پوری نہ کر سکے، راجا پرویز اشرف وزیراعظم بنے، اسمبلی نے مدت پوری کی، 2013 کے عام انتخابات میں طاقتور لوگوں کا جھکاؤ ن لیگ کی طرف تھا، ن لیگ الیکشن جیت گئی، نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بن گئے، عدلیہ بحالی تحریک کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان بھی ایک قوت بن چکے تھے، ان پر ن لیگ کی سرپرستی کا الزام تھا، 2013 میں پہلی بار تحریک انصاف اپنی سیاسی قوت منوانے میں کامیاب ہوئی، KPK میں حکومت قائم کی، 2014 میں خان صاحب اور ڈاکٹر طاہر القادری نے حکومت گرانے کے لئے احتجاجی دھرنا لگا دیا، اسٹبلشمنٹ کھل کر خان صاحب کو سپورٹ کرنے لگی، ن لیگ اور اسٹبلشمنٹ میں دراڑ آئی، 2017 میں نواز شریف کو نااہل کر دیا گیا، شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے، وزیراعظم نواز شریف مدت پوری نہ کر سکے لیکن اسمبلی نے مدت پوری کی، ن لیگ کے راستے روک دئیے گئے، 2018 کے عام انتخابات سے قبل میاں صاحب اور مریم نواز کو جیل بھیج دیا گیا، تحریک انصاف کو ریاستی سرپرستی میں اتحادیوں کے ساتھ حکومت دے دی گئی۔
2021 آیا تو خان صاحب اور اسٹبلشمنٹ کے تعلقات بھی بگڑ گئے اور اتنے بگڑے کے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے خان صاحب کو بھی گھر بھیج دیا گیا، شہباز شریف وزیراعظم بنے، اسمبلی نے اپنی مدت پوری کی صرف ایک دن پہلے اسمبلی توڑی گئی، الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کی مشاورت سے 8 فروری کی تاریخ کا اعلان کیا، چیف جسٹس آف پاکستان نے اس تاریخ کو پتھر پر لکیر قرار دیا، 2024 کے ان انتخابات میں ن لیگ کو سرکاری پارٹی کے طور پر دیکھا جارہا ہے، تحریک انصاف تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے، ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود بلا کا نشان اسے نہیں مل رہا اور ابھی اس پر فیصلہ بھی ہو گیا ہے واقفان حال جانتے ہیں۔ تحریک انصاف کے لئے مزید بری خبر یہ ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن بھی مستعفی ہوگئے ہیں، اعجاز الاحسن کو اکتوبر 2024 میں چیف جسٹس آف پاکستان بننا تھا، یہ ن لیگ کے سخت مخالف سمجھے جاتے تھے، اب صورتحال یہ ہے کہ کاغذات نامزدگی بھی جمع ہو چکے ہیں اورپارٹیوں اور آزاد امیدواروں کو نشان الاٹ بھی کر دیے گئے ہیں۔
یہ موٹی موٹی تاریخی باتیں اس لئے لکھی ہیں تاکہ پاکستان کے باشندے یہ بات خوب سمجھ لیں کہ عام انتخابات میں اس طرح کے تماشے پہلی بار نہیں ہو رہے، پاکستان میں عام انتخابات سے پہلے ہمیشہ ایسی سیاسی رنگینیاں ہوتی رہی ہیں، ایک کو دبایا جاتا ہے، دوسرے کے لئے فیلڈنگ کھڑی کی جاتی ہے، جسے دبایا جاتا ہے، وہ آئین و قانون کی بات کرتا ہے، جسے نوازا جاتا ہے، وہ خوب پروٹوکول لیتا ہے لہذا کسی بھی صورتحال پر نہ زیادہ خوش ہوں اور نہ بد دل ہوں۔ 2024 کے عام انتخابات میں دیکھتے ہیں کہ بازی کون لے کر جاتا ہے اور یہ سیاسی سا رنگی کس کے حق میں یک رنگی ہوتی ہے۔
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراپا موم ہو یا سنگ ہو جا