یہ مسئلہ آج کا نہیں بلکہ برسوں کا ہے جب بلوچستان پاکستان کا حصہ بنا، اس وقت سےبلوچستان اور ریاست کے درمیان اختلافات شروع ہوئے جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ یہ 1960ء کی بات ہے کہ جب نیروز خان کسی معاملے پر وفاقی حکومت سے ناراض ہو گئے تھے اور پہاڑوں کا رخ اختیار کر لیا تھا۔ اس کے بھتیجے سردار دودا خان نے ریاست سے مذاکرات کیے اور ریاست نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کیا تھا کہ نیروز خان کی تمام شرائط مانی جائیں گی۔ نیروز خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہتھیار پھینک کر ریاست کے دائرے میں شامل ہوگئے تھے لیکن بدقسمتی سے ریاست کی طرف سے قرآن پر حلف اٹھانے کے باوجود اسے گرفتار کر لیا گیا اور اس کے بھائی کو پھانسی دی تھی اور نیروز جیل میں انتقال کر گئے۔ بلوچ قوم پرستوں اور بلوچ عوام نے ریاست کے اس عمل کو سخت ناپسند کیا، جس کے بعد ریاست کے خلاف کچھ تحریکیوں نے جنم لیا جو آج بھی سیکورٹی ادا روں کیلئے چیلنج بنی ہوئی ہیں اور سیکورٹی ادارے بھی ان کے خلاف جوابی کارروائیاں کررہے ہیں۔
یہ مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے اور آج نوبت یہاں تک آ گئی کہ ریاست اور بلوچستان آمنے سامنے ہیں۔ آج بلوچستان کے لوگ اسلام آباد میں دھرنا دے رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کے مغوی لوگوں کو رہا کیا جائے یا عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ مزید ماورائے عدالت قتل اور اغوا کا سلسلہ بند کیا جائے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے بار بار یقین دہانی کے باوجود بلوچستان کے لوگ یقین نہیں کررہے کیونکہ ان کا یہ مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔
گزشتہ ماہ بالاچ مولا بخش کے واقعے نے ریاست کے رویے پر کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں کہ بلوچستان کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں ریاست کی طرف سے کیا جارہا ہے؟ اس کے لاپتا افراد کا سراغ لگانے میں ریاست کیوں ہچکچا رہی ہے؟ ہزاروں افراد دہائیوں سے لاپتا ہیں اور اس میں ریاست کی جو ذمہ داری ہے وہ ریاست پوری نہیں کر رہی۔ بالاچ مولا بخش کے واقعے نے صورت حال کو مزید سنگین کردیا۔ یہ ایک واقعہ نہیں ہے ایسے بہت سے واقعات سے پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے۔
یہاں پر دلچسپ منظر یہ ہے کہ لاپتا افراد کے معاملے میں ریاست اور حکومت دونوں ناکام نظر آرہے ہیں۔ لاپتہ افراد کے علاوہ جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل بھی بہت سنگین مسئلہ ہے لیکن حکومت اور ریاست دونوں اس میں بھی سنجیدہ نہیں ہیں اور مقامی ذرائع کے مطابق بلوچستان میں آٹھ ہزارسے زاید افراد لاپتا ہیں اور لاپتا افراد کے اہل خانہ اس کا الزام ریاست پر لگا رہے ہیں کہ ریاست نے ان لوگوں کو اغوا کیا ہے لیکن ریاست اس کی تردید کر رہی ہے۔ قانونی نقطہ نظر سے یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لوگوں کا تحفظ کرے۔ اگر اس کا شہری اس سے سوال کرتا ہے تو ریاست کو سخت راستہ اختیار کرنے کے بجائے جواب دینا چاہیے جیساکہ لاہور میں نگراں وزیر اعظم سے بلوچستان کے لاپتا افراد کے بارے میں جب سوال کیا گیا تو ذمہ دارنہ جواب دینے کے بجائے نگراں وزیراعظم انوارلحق نے احتجاج کرنے والے بلوچوں کے لیے سخت لہجہ استعمال کیا۔ ریاست اپنا کام قانون کے مطابق کرے اور لوگ ریاست کے قوانین کا احترام کریں تو ملک چلے گا ورنہ یہ احتجاج اور ریاست سے سوالات بار بار پوچھے جاہیں گے۔
کیا یہ ریاست کی نااہلی نہیں ہے کہ اس کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں لاپتا ہیں اور اسے خبر تک نہیں ہے؟ کیا دنیا کا کوئی ملک اپنی عوام سے اتنا غافل ہو سکتا ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر اس معاملے میں پاکستان کو بطور ریاست کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ہر مسئلے کا حل اس مسئلے میں موجود ہوتا ہے۔ دنیا میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے جس کا حل نہ ہومگر اس مسئلے کا حل بالکل نہیں ہے جس مسئلے میں حل کرنے والے خود ملوث ہوں۔
بلوچستان کی عوام پاکستان کی عوام ہے ۔ ان کی حفاظت ریاست اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ ان کے لوگ طویل عرصے سے اغوا ہورہے ہیں۔ پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق بلوچستان کےاس وقت سات ہزار سے زاید افراد لاپتا ہیں۔ بلوچستان کے لوگ خاص طور پر خواتین اور بچے اس سردی میں اسلام آباد کی سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں۔ یہ پاکستانی ہیں اور ان کے مطالبات ریاست کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اگر کسی نے قانون توڑا ہے تواسے عدالتوں میں پیش کریں اور قانون کے مطابق اس کو سزا ملنی چاہئے۔ ملک چلانے کا بہترین طریقہ بھی یہی ہے۔ جو ریاست قانون کے مطابق نہیں چلتی وہ ریاست طاقت کے استعمال سے اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔