نعمتیں تو بھاگ جاتی ہیں، انھیں شکر کی رسی کے ساتھ باندھ کر رکھو۔
یہ وہ بات تھی جسے مولانا صاحب حدیث کے طور پر بیان کر رہے تھے اور میں اس بات کی سچائی کو دل سے محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ مزید غوروفکر کر رہی تھی قرآنی تعلیمات بھی اس کی مکمل تائید کرتی ہیں کہ ناشکری سے نعمتیں زائل ہو جاتی ہیں اور شکر گزاری سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے یہ بات سن کر میرا ارادہ مزید مضبوط ہوا کہ شکر کی رسی پہلے سے زیادہ مضبوطی سے تھاموں گی کچھ نعمتیں تو واقعی چلی گئی ہیں۔ ان کے غم کا کیا فائدہ؟ لیکن جو باقی رہ گئی ہیں وہ جانے والوں سے زیادہ ہیں۔ اس پر اتنا شکر واجب ہے کہ میں ادا نہیں کر سکتی۔ لہذا میں جتنا بھی شکر کروں کم رہے گا۔ میری زندگی کا انمول سفر جسکے اختتام پر میں جتنا شکر کروں کم ہے۔
سال ٢٠١٢ جولائی کا مہینہ تھا میرے اسکول کی موسم سرما کی چھٹیاں تھی اور میں ان چھٹیوں میں بہت پرجوش تھی کیونکہ میں اپنی فیملی کے ساتھ اسلام آباد سیرکرنے جا رہی تھی اور یہ میری زندگی کا پہلا سفر تھا جو ٹرین سے تھا۔ میں نے جب سے گھومنےجانے کا سنا تھا میں تتلی کی طرح ہوا میں اُڑ رہی تھی بہرحال ١١ جولائی کومیرا ٹرین کا پہلا سفر شروع ہوا ہم سب صبح اسٹیشن پہنچے ٹرین کا وقت ہوچکا تھا لیکن ٹرین آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی پتا چلا ٹرین ایک گھنٹہ لیٹ آئی گی اور پھر اسی طرح ہوتے ہوتے ٹرین بلآخر رات ١٠ بجے پہنچ ہی گئی۔ سفر کےلئے کھانے پینے کی چیزیں اسٹیشن پر ہی اختتام پزیر ہوگئیں۔ شدید حبس اور گرمی کے باوجود اسلام آباد سیر پر جانے کی خوشی نے مجھے تازہ دم کر رکھا تھا۔
میں نے سنا تھا وہاں کی پہاڑیاں اور خوبصورت مناظر کے بارے میں۔۔۔ صاف ستھرا ماحول شام کی سہانی ہوائیں ریڈ زون ایریا فیصل مسجد دیکھنے کا بھی بڑا اشتیاق تھا۔ صبح ١١ بجے چلنے والی ٹرین رات ١٠ بجے آئی بہرحال ہم سوار ہوئے اب ہم آپ کو کیا بتائیں جو سفر صبح روشنی میں شروع ہونا تھا وہ رات کے اندھیرے میں شروع ہوا۔ دن بھر کی تھکاوٹ اور رات کے اندھییرے نے سارا مزا کرکرا کر دیا تھا کہ اب ہمیں پوری رات سو کر گزارنی تھی نیند غالب آچکی تھی۔
صبح ہوئی تو سندھ کا ایک بڑا حصہ گزر چکا تھا نمازِ فجر کے بعد ناشتے کے انتظامات شروع ہوچکے تھے ٹرین کی گرما گرم چائے کا لطف ہی عجیب تھا۔ ہمارے لئے تو جو لمحہ گزررہا تھا وہ نہایت دلچسپی کا باعث تھا کیونکہ یہ میرا ٹرین کا اور کراچی سے باہر کا پہلا سفر تھا جن شہروں کے صرف نام سنے تھے انہیں سرسری دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا۔ ١٣ جولائی کی صبح ہلکی بارش نے ایک نہایت دلفریب اور خوشگوار فضا کے جلو میں آغازِ سحر کیا تھا۔
انہی دنوں اسلام آباد میں ایک تعلیمی کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا جس میں میری والدہ اور خالہ کو بھی شرکت کرنا تھی۔ تعلیمی کانفرس میں شرکت کے لئے دوسرے شہروں سے بھی اساتذہ تشریف لارہے تھے اس بناءپر رہائش کا انتظام ہاسٹل میں کیا گیا۔ ہاسٹل میں تمام کمرے نہایت آرام دہ بیڈز دیوار گیر الماریوں اور وسیع و کشادہ کھڑکیوں پر مشتمل تھے۔ شدید گرمی کے باوجود پہاڑی چشمے جیسے ٹھنڈے یخ پانی کی فراوانی مبالغے کی حد تک حیران کن تھی۔ پانی کی یہ ٹھنڈک جس شدت سے بطور نعمتِ الٰہی یہاں متعارف ہوئی وہ خود ایک یادگار ہے۔ اس آسائش بھری رہائش گاہ کے دریائے لطف میں پہلا پتھر اس وقت گرا تھا جب ہم بے شمار سیڑھیاں چڑھ کر فلورِ مطلوب تک اکھڑی ہوئی سانسوں کے ساتھ پہنچے تھے۔ دوسرا پتھر اس وقت گرا جب معلوم ہوا کہ کھانا کھانے کے لئے عرش سے زریں فرش یعنی بیسمنٹ میں جانا پڑے گا اور جب ٣ دن بار بار عروج وزوال کی یہ مشق کرنا پڑی تو ہاسٹل کی ہر رہائش کا مزہ ناک کے راستے نکل گیا۔ اس کانفرنس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور لہو گرما دینے والے بریگیڈیئر جنرل حمید گل کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے پرجوش استقبال اور محسنِ پاکستان کو دیکھ کر لوگوں کی اکثریت کا شدتِ جذبات سے آبدیدہ ہوجانے کا منظر بھی ناقابلِ فراموش رہے گا۔ ان کی سادہ سی گفتگو کا ہر ہر لفظ صداقت اور ملک سے بے پایاں اخلاص کا مظہر تھا۔
تعلیمی کانفرنس میں شرکت سے ہمیں بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور مختلف شہروں سے آئے ہوئے اساتذہ سے ملاقات بھی ہوئی۔ اور ان سب کے ساتھ شکرپڑیاں اور پاکستان مونومنٹ کا وزٹ بھی بہت ہی دلچسپ تھا۔ پاکستان مونومنٹ میں جس خوبصورتی کے ساتھ تحریک پاکستان کے مناظر گول میز کانفرنس علامہ اقبال کے وقتوں کی تصاویر کو حقیقت کا رنگ دیا گیا کہ دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ یہ مجسمے ابھی حرکت کرنے لگیں گے اچھی یادوں اور خوبصورتی کے ان مناظر کے ساتھ ہمارا واپسی کا سفر شروع ہوا جلدی جلدی سب سفر کی واپسی کی تیاری کر رہے تھے۔
کھانوں کے لوازمات سے لےکر سامان کی پیکنگ کا ہر مرحلہ طے ہوا تو اسٹیشن جانے کے لئے ہائی ایس آچکی تھی۔خدا خدا کر کے اسٹیشن پہنچے تو ٹرین ہماری منتظر تھی سب ٹرین میں سوار ہوئے اور دعاوں کے ساتھ چل پڑی۔ سب گزرے ہوئے وقت کو یاد کر رہے تھے اور کھانے کا دور چل رہا تھا، گرم گرم چائے لے کر پی جا رہی تھی۔ ایسے میں اچانک ٹرین ایک جھٹکے کے ساتھ رُک گئی۔ سب نے کھڑکیوں سے جھانکنا شروع کردیا پتا چلا کہ ایک ہی پٹری پر ٣ ٹرینیں موجود ہیں۔ کسی کو آنے کا سگنل نہ ملا اور نہ کسی کو جانے کا۔ لیکن کہتے ہیں خدا جس کو رکھے اُسے کون چکھے۔ ٹرین ڈرائیوروں کی حاضر دماغی سے سب خوفناک حادثے سے بچ گئے۔ کافی دیر رکنے کے بعد راستے صاف ہوئے۔ اور ہمارا باقی سفر ایک خوف اور دہشت کے ساتھ شروع ہوا۔ آج بھی جب میں اس واقعہ کو یاد کرتی ہوں تو میرے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔