اَنَا خَيْـرٌ مِّنْهُ،،،،،(اعراف 12)
ابلیس کا آدم کو سجدے سے انکار کرنا اور اناخیر، من کہنا آدم کو نہیی اللہ کو سجدے سے انکار کرنا تھا۔ اللہ نے اسے رجیم،(بلند مقام سے گرا ہوا)کر دیا۔ آج ہم بحیثیت پاکستانی رجیم ہیں تو دیکھیں ھم کہاں کہاں اللہ کو انا خیر، من کہہ رہے ہیں۔ والدین کو اللہ تعالیٰ نے بڑا رتبہ دیاہے مرد کو عورت پر فضیلت دی ہے۔ ان کی فضیلت کو نہ ماننا۔ انا خیر،،من ہے۔ جھوٹ غیبت نفرت حسد کے پیچھے بھی۔ انا خیر،،من ہے۔
پاکستان ہم نے کلمے کی بنا پر حاصل کیا۔ پیپلز پارٹی نے جمہوریت ن لیگ نے ملکی ترقی اور پی ٹی آئی نے وزیراعظم کے عہدے کے تقدس کے لیے بڑی قربانی دی۔ مگر دنیاوی مفاد ملکی ترقی اور ہمدردی میں ووٹ د ینا انا خیر،،من کہنا نہیں تو اور کیا ہے۔
پاکستان صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی طرح معجزاتی طور پر وجود میں آیا۔ اہل ثمود کو جب اونٹنی معیشت پر بوجھ لگنے لگی تو ایک بدبخت نے قوم سے ووٹ لینے کا فیصلہ کیا۔ گھرگھر جا کر پوچھا گیا کہ اونٹنی کو مار دیا جائے یا باقی رکھا جائے۔ مرد عورتوں نوجوانوں نے مارنے کے حق میں ووٹ دیا۔ قرآن میں اللہ نے اس واقعے کا ذکر فعقرو(ان سب نے اسے مارا) کہا۔
صالح علیہ السلام نے اونٹنی کو مرا ہوا دیکھا تو بہت روئے اور فرمایا تین دن کی مہلت ہے توبہ کرو یا عذاب کا انتظار کرو۔ قوم کے رنگ پہلے دن پیلےدوسرے دن سرخ تیسرے دن کالے ہونے لگے وہ تیسرے دن خوشبو لگا کر عذاب کا انتظار کر نے لگے۔
آج ہمیں بھی بلاسود بینکاری اور شریعت معیشت پر بوجھ لگتی ہے۔ ہم بھی غلط لوگوں کو ووٹ دے کر ٹی وی کے آگے رزلٹ کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرم سے باہر ایک قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جانتےہو یہ کس کی قبر ہے۔ صحابہ نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ آپ نے فرمایا یہ ابو رغال کی قبر ہے۔ اہل ثمود کا فرد تھا عبادت گزار تھا مگر ذہنی طور پر قوم کے ساتھ تھا۔ حرم میں عذاب سے محفوظ رھا۔ باہر آیا تو ایک عذاب کا پتھر لگا ہلاک ہو گیا۔
آج کے عبادت گزار اگر اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے لیے ووٹ نہ دیں۔ مذہبی جماعتیں محض مذہبی لبادہ اوڑھے رکھیں تو ابو رغال کے انجامِ کو یاد رکھیں۔
سجدوں سے تیرے کیا ہوا صدیاں گزر گئیں۔
دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر