یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان رب العالمین کی عطا ہے جو قائداعظم محمد علی جناح کی انتھک اور بے لوث جدوجہد کے بعد ہمیں ملا۔ افسوس صد افسوس کہ ہم اس عطائے ربی کی قدر ہی نہ کر پائے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم کے بعد کوئی ایسا رہنما پاکستان کو نصیب ہی نہیں ہوا جو ان کے لگائے ہوئے نوخیز پودے کو تناور درخت میں تبدیل کر سکتا۔
یہ راز تو کوئی راز نہیں سب اہل گلستاں جان گئے
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
جی ہاں !ہمارے گلشن (پاکستان) کے ہر ادارے (شاخ )پر ایک عدد الو کی حکمرانی ہے تعلیم ہو یا صحت، کھیل کا میدان ہو یا زراعت، بجلی، پانی، گیس،بلدیات ، ٹرانسپورٹ، پولیس، ٹریفک پولیس غرض کسی بھی ادارے کا ہم سروے کر لیں ہر ادارہ اپنے آپ ہی گواہی دے گا کہ میرا سربراہ وہ الو ہے جس کا اہل چمن کچھ بگاڑ نہیں سکتے کیونکہ شروع سے ہی ان کی ہی اجارہ داری ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں مہنگائی کم ہوتی ہے نا بے روزگاری۔ پانی، بجلی اور گیس کے مسائل حل ہوتے ہیں نا ہی کچرے اور گٹر کی صفائیاں ہوتی ہیں۔ تف تو اس بات پر ہے کہ ایٹمی پاور ہونے کے باوجود کشکول لے کر ملکوں ملکوں قرضے مانگتے پھرتے ہیں اور جب یہ لیڈران بیمار پڑتے ہیں تو عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے علاج کے لیے بیرون ملک بھاگ جاتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ان کو ہم پر مسلط کون کرتا ہے یہ کہیں آسمان سے تو نازل نہیں ہوتے۔ یہ ہمارے ووٹوں کے ذریعے ہی اقتدار کی مسند پر براجمان ہوتے ہیں تو ہم کیوں ان لوگوں کو یہ حق دیتے ہیں؟ اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں گزرا اگر ہم اپنے گلستان( پاکستان) کو بچانا چاہتے ہیں اور اس کو بہاروں کا مسکن بنانا چاہتے ہیں تو ایسے لوگوں کے سروں پر حکمرانی کا تاج سجائیں جو ہمیں مسلم حکمرانوں کی یاد دلا دیں ، وہ حکمران جو راتوں کو اٹھ کر رعایا کی خبرگیری کیا کرتے تھے، جن کے ہاں امیر و غریب کے لیے یکساں نظام عدل تھا اور جو سیاست کو بھی عبادت سمجھ کر کیا کرتے تھے
آئیے عہد کریں کہ
خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے