دیانت، صداقت، امانت

ارے شاداں ! آج تم پھر اتنی دیر سے آئی کتنی بار کہا ہے کہ بجلی چلی جاتی ہے تو ڈھیر کام پڑے رہ جاتے ہیں پھر سب کاموں کو دیر ہو جاتی ہے لیکن تمہاری سمجھ میں تو بات آتی ہی نہیں”، بیگم طاہرہ نے شاداں کے پھر دیر سے آنے پر ٹوکا۔

“باجی کیا کروں، پورے دو دن بعد رات میں پانی آیا تو میں نے سب کپڑے دھو کر پھیلائے، اتنی ٹھنڈ میں۔ سارا جسم اکڑ گیا صبح دیر سے انکھ کھلی تو گیس جا چکی تھی۔ ناشتے کے لئے نہ چائے بنی نہ پراٹھے بنا سکی۔ اوپر سے یہ مہنگائی۔ بازار سے منگوانے میں 300 روپے خرچ ہو گئے جی۔عاشی کو دو دن سے بخار آ رہا ہے۔ اس کے لئے دوائی لینے نکلی تو چھوٹا بھی ساتھ جانے کی ضد کرنے لگا۔ اس کو لے کر نکلی ہی تھی کے گلی میں کیچڑ پر اس کا پاؤں ایسا پھسل کہ سارا لت پت ہو گیا، ہاتھ پر الگ چوٹ لگی۔ بس جی اس کو نہلانے، دھلانے، بہلانے میں ہی اتنی دیر ہو گئی”، شاداں نے بیگم طاہرہ کے سوال کے جواب میں اپنی دکھ بھری داستان ان کے گوش گزار کر دی۔

تم نے پانی کے چکر میں ہی تو ابھی کچھ عرصے پہلے گھر تبدیل کیا تھا۔ اب یہاں بھی یہ مسئلہ شروع ہو گیا؟”،بیگم طاہرہ کا غصہ کم نہیں ہوا تھا۔ “جی باجی، ہم غریبوں کی بستیوں میں تو یہ مسئلے زندگی کے ساتھ ہی ختم ہوں گے۔ کچھ عرصے پہلے یہاں بہن نے گھر لیا تھا تو اس نے ہی بتایا تھا کہ پانی گیس کا مسئلہ نہیں لیکن اب تو جی یہاں بھی وہی حال ہے”، شاداں کے تیزی سے جھاڑو لگاتے ہاتھوں کا ساتھ زبان بھی تیزی سے دے رہی تھی۔ ‘ہاں تو جن لیڈروں کو اس علقے سے ووٹ حاصل کرنے تھے تو انہوں نے اس وقت تو خوب کام کروائے۔ جب سیٹ مل گئی تو پھر میں کون اور تو کون”،  طاہرہ بیگم نے بھی بھڑاس نکالی۔

جی باجی یہی بات ہے۔ اس علقے کو ٹھیک ٹھاک کروایا، پانی بجلی بھی مل گئے ، گٹر لین، پانی کی پیپ لین بھی صحیح کروائیں۔ سبھی نے خوش ہو کر ووٹ ان کو دئیے جی۔ دو، تین مہینے گھروں میں راشن بھی ڈلوائے۔ بہت سے مسئلے حل ہو گئے تھے پر کئی مہینوں سے وہی پرانا حال ہے۔ کوئی آ کے جھانکتا بھی نہیں کہ غریبوں کی کچھ سن لیں”۔

“ہم نے تو تم لوگوں کو اس وقت بہت سمجھایا تھا کہ بھائی ان وقتی چیزوں کے جھانسے میں مت آؤ، ووٹ ایسے ہی نہیں دے دیا جاتا۔ یہ تو ایک امانت ہے جو سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے۔ جماعت اسلمی واقعی ایسی ہمدرد جماعت ہے جو بغیر کسی غرض کے لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے کوشاں رہتی ہے ہر تم لوگ عقل استعمال کرو تو بات ہی کیا”۔

باجی آپ ٹھیک کہ رہی ہیں، اس وقت تو سب خوش ہو جاتے ہیں، واہ واہ کرتے ہیں لیکن کچھ عرصے بعد ساری وہی پریشانیاں پھر کھڑی ہو جاتی ہیں”۔ “دیکھو پھر سے الیکشن ہونے والے ہیں، ذرا دماغ استعمال کر کے ایسے نیک نیت اور خوف خدا رکھنے والوں کو ووٹ دینا جو لوگوں کا درد محسوس کرنے والے اور ان کا حقیقتاًمستقل حل پیش کرنے والے ہوں۔ جو صرف لالچ دے کر ووٹ حاصل نہ کریں”۔

ہاں باجی ان شاءاللہ، میرے دماغ میں یہ سب باتیں آ گئی ہیں۔ میں اپنی پڑوسنوں کو بھی آپ والی ساری باتیں سمجھاؤں گی۔

ہاں اپنے میاں کے دماغ میں بھی ذرا یہ باتیں بٹھانے کی کوشش کرتی رہنا۔ دیکھو!  اگر ہم سب تجربات کرنے کے بعدبھی بار بار ایسے بددیانت لٹیرے لوگوں کو حکومت میں لاتے رہیں گے تو حالات کبھی بھی نہیں بدلیں گے اور پھر ہم اپنے ووٹ دے کر ایسے فاسق و فاجر لوگوں کو حکومت میں لائیں گے تو اللہ کو کیا جواب دیں گے؟۔

 ہاں باجی، یہ تو سوچتے ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو بھی منہ دکھانا ہے۔ بس اللہ رب الکریم ہم سب کو نیک ہدایت دے دے”،  طاہرہ نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے صدق دل سے دعا مانگی تو شاداں بھی فوراً آمین کہ کر اس التجا میں شریک ہو گئی۔