حمزہ اور فائزہ دونوں بہن بھائی بچپن ہی میں والد کے سائے سے محروم ہو گئے تھے ۔ ان کی والدہ (آمنہ بیگم )گھریلو خاتون ہونے کے ساتھ ایک صابر اور غیور صفات کی حامل تھیں جس نے بچوں کی تربیت میں کوئی کمی نہ رکھی تھی ۔ شوہر کی وفات کے بعد آمنہ بیگم کپڑے سلائی کر کے اور کھیتی باڑی سے گھر کا نظام سنبھالا ۔ حمزہ اور فائزہ دونوں میٹرک میں زیر تعلیم تھے ۔
اسکول میں سب بچے وقفے کے دوران میں مختلف اقسام کی اشیائے خوردونوش ساتھ لاتے جو اس دورانیہ میں بیٹھ کر کھاتے تھے مگر یہ دونوں بہن بھائی اس وقت بھی اکیلے بیٹھے پڑھتے رہتے تھے۔ ماسٹر امجد صاحب ایک روز ان کے پاس بیٹھے ، سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا اور فرمایا “بچوں ! کیا آپ کچھ کھانا پسند نہیں کرتے ۔” حمزہ اور فائزہ یک زبان ہو کر بولے :
” سر ہمیں بھوک محسوس نہیں ہوتی “
ماسٹر امجد کو یہ بات ہضم نہ ہوئی وہ دل ہی دل میں ان کے لیے ایک درد محسوس کرتا جیسے ایک کامیاب معلم اپنے طلبہ کے لیے محسوس کرتاتھا ۔ ایک روز ماسٹر امجد نے چپکے سے ان کی باتیں سنیں اور اشک ریز ہو گے دونوں بہن بھائی والد کی کمی محسوس کرتے ہوئے بول رہے تھے
” کاش ہمارے والد زندہ ہوتے “
ماسٹر امجد نے دونوں بچوں کو پاس بلایا اور پوچھا بیٹا حمزہ آپ بڑے ہو کر کیا بنو گے ؟
حمزہ کچھ دیر خاموش رہا اور پھر بولا :
” اگر اللہ پاک نے چاہا میں معلم بنوں گا “
ماسٹر امجد نے پوچھا کوئی خاص وجہ ؟ حمزہ کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی اور بولا ” ماسٹر صاحب ! استاد ہی وہ واحد ہستی ہے جو بچوں کو والدین کی کمی کبھی محسوس نہیں ہونے دیتا ، وہ کتنےہی غصے میں یا رنج میں کیوں نہ ہو بچوں کے سامنے مسکراہٹ سجائے رکھتا ہے ، بچوں کی کامیابی پر ایسے جھوم اٹھتا ہے جیسے وہ خود کامیاب ہو اور خود اپنی منزل پر بےشک نہ پہنچ پائے مگر اپنے طالب علموں کو اس منزل تک راستہ فراہم کرتا ہے جس پر چل کر بچے سرخرو ہوتے ہیں اور یہ سبق کتابوں سے نہیں آپ سے سیکھا ہے ۔” ماسٹر امجد نے حمزہ کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا اور سینے سے لگایا اور کہا ” کاش میں وہ وقت دیکھ سکوں جب آپ اپنی منزل پر پہنچو گے” حمزہ یک دم بولا ” ماسٹر صاحب آپ ضرور دیکھیں گے ۔” فائزہ نے بھی خاموشی توڑی اور بولی ” ان شاء اللہ”۔ ماسٹر امجد ( فائزہ کی جانب متوجہ ہو کر بولے) بیٹی فائزہ ! آپ کس پیشہ کو زیادہ پسند کرتی ہیں ؟ فائزہ بولی ” ماسٹر صاحب ! پیشے تو سب ہی مقدس ہیں مگر مجھے ڈاکٹر بننا ہے۔ میں چاہتی ہوں جیسے میرے والد کے پاس علاج کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے آخری سانسیں بھی گھر میں لیں میں چاہتی ہوں کوئی اور باپ ایسےدم نہ توڑے۔ میں اس پیشے کو پیسے کی بجائے انسانیت کے ناتے اپنانا چاہتی ہوں ۔ کتنے ہی ایسے مریض ہیں جو علاج کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے موت کی فریاد کرنا شروع کر دیتے ہیں اور کچھ کو ڈاکٹر کی غفلت نگل جاتی۔ ” ماسٹر امجد مسکراتے ہوئے۔۔۔ ماشاءاللہ! آپ دونوں پر مجھے فخر ہے اور یقیناً ایک دن ضرور آپ دونوں کامیاب ہوں گے ۔ کامیابی کیا ہے؟ شائد آپ کو معلوم ہو مگر مزید وضاحت کر دیتا ہوں کہ منزل پر چلتے رہنے کا نام کامیابی ہے تھک ہار کر پیچھے ہٹنا اصل ناکامی ہے اور بلاشبہ کامیابی ایک دن میں حاصل نہیں ہوتی اس کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے اور سچی لگن محنت کی شرط ہے ۔ آپ کا مالدار ہونا ضروری نہیں ، پیسوں کا ہونا یا جاگیرداروں کی اولاد ہونا ضروری نہیں ۔۔۔۔ کامیابی کے لیے محنت کا ہونا ضروری ہے۔ حمزہ اور فائزہ نے ماسٹر اسلم سے یہ عہد کیا آج کے بعد ہم مزید محنت کریں گے اور کامیابی حاصل کریں گے۔
وقت گزرتا گیا اور ایسا لمحہ آن پہنچا کہ حمزہ اب پروفیسر حمزہ بن چکا تھا اور اس کی بہن فائزہ اب ڈاکٹر فائزہ تھی۔ دونوں احسن طریقےسے اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ ایک روز اسکول میں پروفیسر حمزہ نے بچے کو تنہا روتے ہوئے دیکھا اور اس کے پاس پہنچے اور رونے کی وجہ دریافت کی تو بچہ بولا میرے والد بھی آپ کی طرح معلم تھے جب بھی آپ کو دیکھتا ہوں مجھے انہی کا چہرہ یاد آتا ہے۔ اب وہ گھر تکلیف کےکرب میں ہیں ہم انھیں ایک نجی ہسپتال میں لے کر گے تھے مگر ڈاکٹروں نے علاج کے لیے بڑی رقم کا مطالبہ کیا ہے۔ پروفیسر حمزہ نے بچے سے ان کے والد کا نام پوچھا تو بچے نے کہا امجد احمد اور سب ماسٹر امجد صاحب کے نام سے سب پکارتے ہیں ۔ یہ نام سنتے ہی پروفیسر حمزہ نے بچے کو کہا مجھے آپ کے والد کی عیادت کرنی ہے لہذا مجھے اپنے ساتھ لے چلو ۔ گھر پہنچتے ہی پروفیسر حمزہ نے جب اپنے استاد ماسٹر امجد صاحب کو دیکھا تو بلاساختہ آنکھوں سے آنسو جاری ہو گے اور ان کے پاس گھٹنے کے بل بیٹھے، ہاتھوں اور پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہا میں حمزہ علی جس نے آپ سے عہد کیا تھا محنت کروں گا اور اسی محنت اور آپ کی دعاؤں کے سبب آج پروفیسر بننے میں کامیاب ہوا ۔ ماسٹر امجد کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے اور کہا کہ خدا کا شکر ہے جس نے مجھے یہ دن دکھایا۔ پروفیسر حمزہ کے استفسار پر ماسٹر امجد ہسپتال جانےکو راضی ہوئے اور وہاں پہنچے تو ان کی ملاقات ڈاکٹر فائزہ سے ہوئی اور ڈاکٹر فائزہ نے جب ماسٹر اسلم صاحب کو دیکھا تو یک دم جھک کر استاد محترم کو کرسی پر بٹھایا اور ان کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھی اور ہاتھ مبارک کو تھامے ہوئے کہا میں فائزہ علی آج ڈاکٹر فائزہ بن گئی اور یہ سفر آپ کے بغیر ادھورا تھا۔ ماسٹر اسلم صاحب بولے آج میری زندگی کا سب سے حسین لمحہ ہے اور یہ خوشی ناقابل بیان ہے اور یہ کامیابی آپ کی محنت کا ثمر ہے۔
ماسٹر اسلم کا باقاعدہ علاج ڈاکٹر فائزہ نے کیا اور وہ دوبارہ تن درست ہو گے ۔ یقیناً کامیابی پیسوں کی نہیں بل کہ محنت کی محتاج ہے۔