انتخابات2024اورہمارا ہوم ورک

سعاد!اندلس میں ہماری تباہی کی کئی وجوہات بیان کی جائیں گی ۔ لیکن میرے نزدیک ہماری آخری شکست اور غلامی کی وجہ یہ ہے کہ اندلس میں ظالم بادشاہ اور تخت و تاج کے بےحیا دعوے دار پیدا ہوتے رہے اور ہم ان کی بددیانتی اور ان کا ظلم و وحشت برداشت کرتے رہے۔”

درج بالا اقتباس نسیم حجازی کے ناول ” کلیسا اور آگ” سے لیا گیا ہے۔ اس پیرا گراف میں ہیرو ابوالحسن اپنی بیوی سعاد کو بتارہا ہے کہ اندلس میں مسلمانوں کی مکمل شکست کی آخری وجہ مسندِ اقتدار پر ظالم بادشاہوں کا متمکن ہونا ہی نہیں بلکہ اس کے بے حیا دعوے داروں کا پیدا ہونا بڑی وجہ ہے۔

قارئین کرام! ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے آپ کو چھ سو سال پیچھے لے جانے کا، زوال پذیر ہسپانیہ کے گلی کوچوں میں گھمانے پھرانے کا۔۔

یوں بھی ہم آپ تو “جدید دور” کے باسی ہیں نا۔۔۔بادشاہ۔۔۔ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔۔۔رحم دل بادشاہ ۔۔۔ظالم بادشاہ ۔۔۔یہ تو پرانے وقتوں کی کہانیاں ہیں۔ اب تو زمانہ بڑی ترقی کر گیا ہے۔ اب تو ہر جا جمہوریت کا دور دورہ ہے۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں۔ عدل و انصاف اور بنیادی ضروریاتِ زندگی عام آدمی کی دسترس سے باہر نہیں ہیں۔

قارئین! آپ حیران ہورہے ہیں۔۔

نہیں نہیں۔۔ شاید مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہورہے ہیں۔ جی ہاں! ہم آپ کے چہرے کو پڑھ سکتے ہیں۔صاف لکھا ہے آپ کے چہرے پر کہ ” جمہوریت” بس نام کی ہے،سوچ اور روئیے کہاں ہیں جمہوری۔۔۔

ویسے آپس کی بات ہے ، ہمارا بھی یہی مشاہدہ ہے!

اچھا۔۔۔ کیا ضروری ہے کہ ہم۔۔۔ مسائل کے تذکرے تک ہی محدود رہیں۔ کیا ضروری ہے کہ ہم خود کو بدقسمت مان لیں اور بس؟

نہیں نا! یہ دونوں روئیے بیمار ذہنیت کی پیداوار ہیں۔ صحت مند دماغ مثبت اندازِ فکر اپنا کر ہر مشکل سے نکلنے کے بارے سوچتے ہیں۔

یہ تو آپ بھی مانتے نظر آرہے ہیں کہ مذکورہ ناول کے ہیرو ابوالحسن نے جو کہا “ظالم بادشاہ اور تخت و تاج کے بے حیا دعوے دار ۔۔۔” تو کچھ کچھ یہ بات تو آج بھی نظر آتی ہے۔

کیا ان حکمرانوں کو ظالم نہیں کہیں گے،جن کے دورِ حکمرانی میں لوگ خود کشیوں پر مجبور ہوگئے؟

نوجوان میرٹ پہ آنے کے باوجود بے روزگاری کا بوجھ اٹھائے در بدر پھرتے ہیں۔۔۔

آٹھ سالہ بچی کی نہ جان محفوظ ہے نہ عزت۔۔۔

“بادشاہ،، نہیں بلکہ ۔۔”منتخب” حکمران ہی سہی، مگر کیا وہ محافظ نہیں چھ سالہ زینب کی عزت کے؟

بارہ سالہ رضوانہ پر تشدد کرنے والی باجی صومیہ کے نوکیلے ناخنوں اور خوفناک ڈنڈوں کا حساب کس سے مانگے گی تاریخ ؟؟

آپ کہیں گے ” یہی کچھ ہورہا ہے اس ملک میں، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی، ہمارے ساتھ تو کسی نے وفا نہیں کی۔۔۔”

صحیح کہہ رہے ہیں آپ ۔۔۔

لیکن۔۔۔

سنئے! آپ نے خود اپنے ساتھ کب وفا کی ہے؟؟

چلیں اب تک جو ہوا سو ہوا، اب آنے والے انتخابات کے حوالے سے دیکھ لیتے ہیں کہ کیا فروری 2024 کے انتخابات کے حوالے سے ہم نے ہوم ورک کر لیا ہے؟ ۔۔۔ مثلاً

ہمیں یہ آگاہی ہے کہ ہمارا دستور ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا کے ممبران کے لئے کیا معیار طے کرتا ہے؟

یا ہم نے دستور کی دفعہ 62 اور 63 کے مطابق اپنے پسندیدہ امیدوار یا جماعت کو جانچ لیا ہے؟

دستور کی دفعہ 62 اور میں درج ہے کہ

(د)وہ اچھے کردار کا حامل ہو اور عام طور پہ احکامِ اسلامی سے انحراف میں مشہور نہ ہو۔

(ج) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو اور اسلام کے منشور کردہ فرائض کا پابند ہو۔ نیز کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرتا ہو۔

(ڈ) وہ سمجھ دار ہو، پارسا ہو، ایماندار اور امین ہو اور کسی عدالت کا کوئی فیصلہ اس کے خلاف نہ ہو۔

(ذ) اس نے پاکستان بننے کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کوئی کام نہ کیا ہو اور نظریہء پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو۔

آرٹیکل 63 ۔ نااہلیت برائے ممبر شپ پارلیمنٹ۔۔۔

علاوہ دیگر چیزوں کے،یہ بھی لکھا ہے کہ

(ع) اگر اس نے قرض دو ملین روپے یا زیادہ لیا ہے کسی بنک، فنانشل ادارے، کو آپریٹو سوسائٹی یا کو آپریٹو باڈی سے اپنے نام پہ یا اپنی بیوی خاوند یا بچوں کے نام پہ، جو ایک سال تک واپس ادائگی نہ ہو سکی ہو یا اس قرض کو معاف کروا لیا گیا ہو۔

(غ)۔۔۔ وہ یا اس کی بیوی یا کفالت کار کوتاہی کر چکے ہوں یوٹیلیٹی بلز، بشمولہ بجلی گیس اور پانی کے چارجز زائد از دس ہزار روپے چھ ماہ تک دائری کاغذات نامزدگی تک۔۔۔

اب میرے پیارے قارئین دوبارہ مایوسی کی بات کہ رہے ہیں کہ،، دستور کی ان دفعات پہ کوئی پورا اترتا ہی نہیں۔۔۔۔

جناب! اگر ایسا ہی ہوتا تو اس وقت آپ سکون سے اپنے کمرے میں بیٹھے اپنے فون /لیپ ٹاپ پر یہ آرٹیکل نہ پڑھ رہے ہوتے، قحط الرجال ہوتا، صور اسرافیل پھونکا جا چکا ہوتا۔۔۔۔

اور ظاہر ہے کہ ایسا فی الواقع نہیں ہے۔۔۔

ہمیں خود ڈھونڈنا ہو گا کوئی ایسا جو 62 اور 63 پر پورا اترتا ہے۔۔۔

ہو سکے تو عدالت عظمیٰ کے منصف اعظم جسٹس آصف سعید کھوسہ(2018 تا 2020 )کی گواہی۔۔۔۔ جو عدالت کے ریکارڈ میں موجود ہے، دیکھ لیجیے گا۔۔۔۔۔

اب ہمیں کچھ عرض کرنا ہے نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی خدمت میں کہ۔۔۔۔

جنوری کے ٹھنڈے موسم کے باعث فضا پہ چھائی دھند کا مداوا تو شمس و قمر ماہ و سال کے نظام کا مالک کرے گا، آپ فروری میں ہونے والے انتخابات کی خبر اور انتخابی ماحول پہ چھائی دھند کا کچھ مداوا کیجیے خدارا۔۔۔۔

اب یہ ملک مزید حادثات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ اسموگ اور دھند کی زیادتی حادثات کا سبب بنتی ہے۔۔۔۔

آخر میں سراج الحق کی ایک ٹویٹ نقل کرتے ہیں۔۔۔

،، ملک میں سیاسی گھٹن اور دھند کا موسم آئین، قانون اور جمہوریت کی بالادستی سے ہی نکھر سکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکلز 62،63 پر عمل ہو تو سیاست کرپشن سے پاک ہو سکتی ہے۔ قومی سیاست گزشتہ طویل عرصے سے اہلیت اور ایمانداری پر نہیں این آر او کی بنیاد پر چل رہی ہے۔۔