افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
انتخابات کے قیمتی اور پُر مشقت عمل میں اصل اہمیت ووٹ اور ووٹر کی ہوتی ہے۔ اگر ان دونوں کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا جائے تو انتخابی عمل بالکل بے کار ہو کر رہ جاتا ہے۔ رائے دہی ایسا معاملہ نہیں کہ ہم اسے دنیاوی کام سمجھ کر اس سے الگ ہو جائیں۔ بلکہ شرعی نقطہ نظر سے ووٹ کی حیثیت شہادت اور گواہی کی سی ہے جس طرح جھوٹی گواہی دینا حرام اور نا جائز ہے اسی طرح ضرورت کے موقع پر شہادت کو چھپانا بھی حرام ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے:-
“اور تم گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو شخص گواہی کو چھپائے، اسکا دل گناہ گار ہے” ۔ (سورۃ البقرہ)
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- “جس کسی کو شہادت کے لئے بلایا جائے، اور وہ اُسے چھپائے تو وہ ایسا ہے جیسے جھوٹی گواہی دینے والا ۔ (جمع الفوائد حوالہ طبرانی)
گواہی دینے کے لئے تو اسلام نے اس بات کو پسند کیا ہے کہ کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی انسان اپنا یہ فریضہ ادا کر دے۔ اس میں کسی کی دعوت یا ترغیب کا انتظار نہ کرے۔حضرت زید بن خالد سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا “کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کہ بہترین گواہ کون ہے۔ وہ شخص جو اپنی گواہی کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ادا کردے۔ (جمع الفوائد بحوالہ مالک و مسلم )
ووٹ بھی بلاشبہ شہادت ہے۔ قرآن و سنت کے یہ تمام احکام اس پر لاگو ہوتے ہیں۔ لہذا ووٹ نہ دینا دین داری کا تقاضا نہیں بلکہ اسکا صحیح استعمال کرنا ہرمسلمان کا فرض ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ اگر شریف اور دین دار لوگ انتخابات کے تمام معاملات سے بے نیاز ہو کر بیٹھ جائیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ سیاست کا پورا میدان بے دین لوگوں کو سونپ رہے ہیں۔ ایسی صورت میں کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ حکومت نیک اور اہل افراد کے ہاتھوں میں آئے گی؟ یہ تو ناممکن ہے۔ تو پھر ان شریف لوگوں کو ملک کی دینی اور اخلاقی تباہی کا شکوہ کرنے کا بھی کوئی حق نہیں پہنچتا کیونکہ اس تباہی کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے اور ان کے حکام کی کارکردگی کا عذاب و ثواب ان ہی کی گردن پر ہوگا ۔ خود ان کی آنے والی نسلیں اس شر و فساد سے کسی طرح محفوظ نہیں رہیں گی جس کے تدارک کے لئے انہوں نے کوئی کوشش نہیں کی۔
ہماری بد قسمتی کہ صد سالہ دورِ غلامی میں انگریز سرکار برصغیر کے مسلمان کو یہ سبق پڑھانے میں کامیاب ہو گئی کہ دین کا دنیاوی زندگی کے معاملات سے کوئی سروکار نہیں۔ دین صرف نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ تک محدود ہے باقی سب معاملاتِ زندگی دین کی گرفت سے آزاد ہیں۔ لہذا اکثر مسلمان انتخابات کو بھی ایک خالص دنیوی معاملہ سمجھ کر اس میں مختلف قسم کی بدعنوانیوں کو گناہ نہیں سمجھتے جبکہ دینِ اسلام کا صحیح فہم رکھنے والے جانتے ہیں کہ جب کسی فرد کے بارے میں ضمیر اور دیانت کا یہ فیصلہ ہو کہ وہ ووٹ کا حقدار نہیں اور کوئی دوسرا شخص اس کے مقابلے میں زیادہ اہلیت رکھتا ہے تو اس وقت محض ذاتی اغراض کی بنا پر اسے ووٹ دے دینا “جھوٹی گواہی” کے زمرے میں آتا ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی گواہی کو بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “کیا میں اکبرالکبائر (بڑے بڑے گناہ) نہ بتاؤں؟ اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا اور خوب اچھی طرح سنو ! جھوٹی گواہی، چھوٹی بات ” حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ لگائے بیٹھے تھے جب جھوٹی گواہی کا ذکر آیا تو اٹھ کر بیٹھ گئے اور جھوٹی گواہی کا لفظ بار بار ارشاد فرماتے رہے”۔(بخاری و مسلم )
لہٰذا ووٹ ڈالنے کے مسئلہ کو ہرگز یوں نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ ایک دنیوی مسئلہ ہے، اسکا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ یقین رکھیے کہ روز آخرت ہر شخص کو اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور اپنے دوسرے اعمال کے ساتھ اس عمل کا بھی جواب دینا ہے کہ اُس نے اپنی شہادت کا استعمال کس حد تک دیانت داری کے ساتھ کیا؟ ووٹ کا غلط استعمال ایک ایسا گناہ ہے جس کا نتیجہ پورے ملک اور قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس لئے یہ دوسرے ذاتی گنا ہوں سے زیادہ شدید گناہ ہے کیونکہ اسکی تلافی مشکل ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں کچھ پڑھے لکھے لوگ ایسے بھی موجود ہیں جن کا خیال ہے کہ اگر ہم ووٹ نہ بھی دیں تو کیا فرق پڑے گا۔ میں ان معززین سے پوچھتی ہوں کہ آپ اپنے آپ کو اتنا غیر اہم کیوں سمجھتے ہیں؟ اگر آپ اہم ہیں تو آپ کا ووٹ بھی اہم ہے۔ لہذا اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کر کے اپنی اہمیت کا ثبوت دیجئے۔ آپ کا ووٹ فیصلہ کن بھی ہو سکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ یہ نیکی کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر اسے جھکا دے تو پوری قوم کے لئے مفید ہوگا۔ اس کے برعکس ایک ان پڑھ جاہل کا ووٹ بھی فیصلہ کن ہو سکتا ہے کیو نکہ اگر ایک بے دین اور بد کردار امیدوار کے بیلٹ بکس میں صرف ایک ووٹ زیادہ چلا جائے تو وہ کامیاب ہو کر پوری قوم پر مسلط ہو جائے گا جبکہ مستحق امیدوار نا کام ہو جائے گا۔ عوام میں سے ایک رائے یہ بھی سننے میں آتی ہے کہ کوئی بھی امید وار اس قابل نہیں کہ اُسے ووٹ دیا جائے۔ تو جنابِ والا عرض ہے کہ ابھی قحط الرجال نہیں ہے کہ آپ سمجھیں کہ کوئی شخص میرے ووٹ کا حقدار نہیں۔ اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو آپکو شریف، دیانتدار ،تعلیم یافتہ اور محبِ وطن افراد مل جائیں گے۔ لہذا ووٹ ضائع نہ کیجئے کیونکہ ہمارے مروجہ نظامِ انتخاب میں ایک ایک روٹ قیمتی ہے کیونکہ،،،،
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
گویا کہ یہ ہر فرد کا شرعی، اخلاقی اور قومی فریضہ ہے کہ وہ اپنے ووٹ کو اتنی ہی توجہ کے ساتھ استعمال کرے جتنا کہ وہ فی الواقع مستحق ہے۔ اے میرے پیارے وطن کے پیارے لوگو! میرا آپ کے لئے مخلصانہ مشورہ ہے کہ اب کی بار ان سیاسی پارٹیوں کے دھوکے میں نہ آنا۔ ان کے لیڈروں کے بیرونی ممالک میں ٹھکانے ہیں۔ گویا کہ انکے پاس پرواز کے لئے پر موجود ہیں۔ کوئی بھی مصیبت آنے پر یہ ہمیں چھوڑ کر اڑ کر اپنے آشیانوں میں جا چھپیں گے۔ اس لئے آپ قرآن والوں کا ساتھ دیں۔ قرآن کو مضبوطی سے پکڑ لیں۔ اس کا خالق و مالک ہمارا محافظ و نگہبان بن جائے گا۔ اسی نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے۔
حسبنا اللہ و نعم الوكيل
اللہ ہم کو کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ (سورہ آل عمران )