بہت وقت گزر گیا۔ ہاں! وقت کا تو کام ہی گزرنا ہے۔ لیکن بحیثیت قوم ہم آج تک یہ ہی نہ سمجھ پائے کہ اتنا طویل عرصہ گزر گیا اور اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اگر ماضی کے اوراق پلٹیں تو واضح دکھائی دیتا ہے کہ ہم نے کھویا ہی کھویا ہے، پایا تو صرف ان گنے چنے لوگوں نے ہے جنہیں ہم اشرافیہ کہتے ہیں۔ ہم نے انہیں اتنا شریف جانا کہ ملک کی باگ ڈور ان کے ہی سپرد کر دی اور یہی نہیں کہ ایک مرتبہ غلطی سے ایسا ہو گیا ایسی معصومانہ غلطیاں پاکستانی قوم سالہا سال دہراتی رہی اور پھر اس کا خمیازہ بھی بھگتتی رہی۔ لیکن مجال ہے کہ اس غلطی سے سبق حاصل کیا ہو۔
ملک کا پڑھا لکھا طبقہ جو بظاہر قرآن کو بھی سمجھ کر پڑھنے کا دعویٰ کرتا ہے ایسی اشرافیہ کی پشت پر ہمیشہ کھڑا دکھائی دیا اور دوسری طرف وہ جاہل لوگ جو صرف نام کے مسلمان ہیں۔ جنہیں شاید خدا کا تو پتہ ہے لیکن آخری نبی ﷺ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ یہ دونوں گروہ خاص طور پر ایسی موروثی اشرافیہ کو اقتدار کے نشے کا عادی بنانے میں ملوث رہے۔ اور تیسرا گروہ وہ جو تماشہ دیکھتا رہا۔ ملک میں رہتے ہوئے چند مخصوص خاندانوں کو اقتدار کے مزے لوٹتے دیکھتا رہا۔ جن کا روزگار، تعلیم اور مرنا جینا تو اسی ملک میں ہے لیکن ملکی نظم و نسق کن ہاتھوں میں ہے کچھ پرواہ نہیں۔ فخر سے کہتے دکھائی دیتے ہیں “ہم تو ووٹ ہی نہیں دیتے، کس کو ووٹ دیں؟ کوئی جماعت اس ملک کے ساتھ مخلص ہی نہیں ہے” وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اپنے رویے پر بھی نظر ثانی کرکے دیکھیں کہ آپ خود اس ملک کے ساتھ کتنے مخلص ہیں؟ اپنے معمولی مال کے لیے کسی چور یا بے ایمان بندے کو نگہبان بنا سکتے ہیں؟ جس ملک سے آپ کا اور آپ کی نسلوں کا مستقبل وابستہ ہے اس کی ذمہ داری چور اچکوں کے سپرد کر کے مزے کی نیند کیسے سو سکتے ہیں؟
اب تو گواہی کا مطلب سمجھ جانا چاہیے کہ ووٹ گواہی ہی کی ایک صورت ہے اور یہ بھی اچھی طرح جان لیں کہ اس ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرنے کی ذمہ داری اگر ان پڑھ اور جاہل لوگوں پر ہے تو ساتھ ساتھ ان پڑھے لکھے لوگوں پر بھی ہے جو جانتے بوجھتے چند خاندانوں کے پشت بان بنے چلے آرہے ہیں۔ کیا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا؟ ان خاندانوں نے تو نسل در نسل اس ملک کو لوٹنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ کم از کم جاہل نہیں تو پڑھے لکھے لوگ ہی بدل جائیں۔