انتخابات ہورہے ہیں آئندہ ماۃ فروری میں کبھی الیکشن کےعنوان کے تحت دلاور فگار اور عنایت اللہ خان ٹونکی کی شاعری سنی بھی اور پڑھی بھی تھی دراصل والد صاحب سے علمی و ادبی ذوق ورثے میں ملا ہے جسے انکے ذخیرہ کتب کالج لائبریری اور میری مادر علمی ہائر سیکنڈری اسکول جہاں تقریبا بیس سال تدریس کے فرائض انجام دیے بہت قیمتی خزانہ کتب سے مالامال تھی اس سے بھر پور استفادہ حاصل کرنے کا سنہری موقع ملا اب کتب بینی اور کتب کو قیمتی قرار دینے کے پیمانے ہی بدل گئے ہیں۔
تو جناب بات ہورہی تھی الیکشن کی کہاں سے کہاں نکل گئی۔ جی “الیکشن کا زمانہ آرہا ہے”۔ ایک نظم کبھی سنی اور پڑھی تھی۔ اب پھر سن رہے ہیں کہ الیکشن ہورہے ہیں۔ میں سوچ میں پڑ گئی تھی کہ کیا واقعی ہمارے ہاں الیکشن ہوتے ہیں؟ جب میں بہت چھوٹی تھی تو غالباً انیس سو ستتر کی بات ہے تو نعرے بہت سنے تھے جن کی بازگشت آج بھی ذرا سی ذہن میں ہے۔ ایک نعرہ تھا “روٹی کپڑا اور مکان تلوار کا ہے پاکستان”۔ دوسرا تھانو ستارےبھائی بھٹوجی کی شامت آئی۔ جب ابا جان اور انکے دوستوں کی بیٹھک لگتی تھی تو اچانک انکی بحث کے دوران آوازیں بلند ہوجاتی تھیں ایک جملہ مجھے یاد ہے کہ ابا جان نے کہا تھاکہ جن بے ضمیر لوگوں نےبانیء پاکستان قائد کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو نہیں بخشا وہ قومی اتحاد کو کیسے چھوڑ دیں گے؟ جب انکے دوست چلے گئے تو میں نے اپنی آپی سے پوچھا تھا محترمہ فاطمہ جناح تو مجھے بہت اچھی لگتی ہیں انکے ساتھ کیا ہوا تھا؟ آپی نے کہا شاید ابا جان کو معلوم ہوگا۔ جب ابا جان سے پوچھا بیٹا ابھی آپ بہت چھوٹی ہیں سمجھ نہیں سکتیں جب بڑی ہوجائیں گی تو سمجھا دوں گا۔
پھر وقت کے ساتھ بہت سے الیکشن دیکھے بہت کچھ سمجھ آگیا محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ جو ہوا اسکا علم بھی ہوگیا۔ لوگوں کو بغیر شناختی کارڈ ووٹ ڈالتے ہوئے بھی دیکھا۔ سن دو ہزار 13 یا 14 کے الیکشن میں مجھے اپنے ہی حلقہ انتخاب (گلشن اقبال) میں تین چار پولنگ اسٹیشنز کی رپورٹنگ کا کام ملا تھاجسکااجازت نامہ میرے پاس تھا اس دفعہ بہت کچھ دیکھا ایک بڑے ٹرک میں خواتین مرد اور بچوں کا جم غفیر اسٹیشن کے باہر اترا پھر وہ اندر آگئے میں مختلف بوتھ کا دورہ کر رہی تھی کہ اچانک ایک آدمی تیزی سے اندر گھسا،اورکہا کیا بات ہے اتنی دیر کیوں لگ رہی ہے؟ ایک عورت بولی یہ الیکشن کرانے والی سستی ماریاں دیر کررہی ہیں۔ جبکہ وہ بالکل درست رفتار سے کام کر رہی تھیں تھوڑی دیر بعد وہی آدمی دوبارہ اندر آنے لگا تومیں نے سیکیورٹی کو اشارہ کیا اس نے روکا تو اس آدمی نے جھانکتے ہوئے آواز دی ہوگیا اسی عورت نے کہا نہیں اصل میں ووٹرز لمبی قطاریں لگی تھیں میں نے پوچھا اتنی جلدی کیوں ہے آپ لوگوں کو اس نے کہا۔ ارے میڈم یہ عورتیں ادھر سے فارغ ہوں گی تو صفورا گوٹھ جائیں گی نا۔ میں نے کہا کہ یہ صفورا گوٹھ سے یہاں ووٹ ڈالنے آئی ہیں؟ کیا انکا ووٹ وہاں نہیں ہے؟ تو اس نے کہا انکا ووٹ ادھر بھی وہاں بھی ہے۔
پھر میں نے ایسی بہت سی باتیں نوٹ کیں ایک جگہ دو پارٹیوں کی پولنگ ایجنٹ خواتین ایک پارٹی کے بوگس ووٹ ڈلوانے کے خلاف احتجاج کررہی تھیں۔ لیکن پولنگ عملے کی خواتین دھاندلی کرنے والوں کےآگے بھیگی بلی بنی بیٹھی تھیں۔ ایک جگہ مرد و خواتین کو بند کردیا گیا تھا اور دوسرے کمرے میں بیلٹ پیپرز پر ٹھپے لگاکر بیلٹ باکس میں ڈالے جارہے تھے۔ اس الیکشن میں بارہ یا ایک بجے دوپہر جماعت اسلامی کی جانب سے کراچی میں الیکشن کےبائیکاٹ کا اعلان ہوا۔ تو ووٹرز کا رش کچھ کم ہوگیا۔ خیر بہر حال یہ سب دیکھتے ہوئے میری ڈیوٹی بالآخرختم ہوگئی جب رپورٹ جمع کرواتے وقت عملے کے ذمہ داران کویہ تمام باتیں بتائیں تو انہوں نے کہا کہ میڈم کیا کریں ہر بار یہی کچھ ہوتا ہے۔ یہ تو ہمارے سسٹم کی خرابی ہے۔ اس وقت مجھے اپنے ابا جان کی بات یاد آئی جب انہوں نے کہا تھا یہاں الیکشن کا صرف نام لیا جاتا ہے ہوتا تو سلیکشن ہی ہے۔ اس وقت میں نے دل سے دعا مانگی یا اللہ اس مرتبہ الیکشن ہو سلیکشن نہیں یہ لوٹ کھسوٹ کرپشن کا نظام تبدیل ہوجائے۔ باریوں کا سلسلہ بند ہو جائے ہمیں باصلاحیت مخلص اور دیانتدار حکمران میسر آجائیں۔ آمین۔