تیری کامیابی پر تعریف، تیری کوشش پر طعنہ ہوگا
تیرے دکھ میں کچھ لوگ، تیرے سکھ میں زمانہ ہوگا
انسان کی کامیابی کا راز پر سکون دماغ ہوتا ہے
پر سکون وہ ہوتا ہے جو نظر انداز کرنا جانتا ہے
اس افرا تفری کے دور میں ہر شخص کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح کامیاب ہو جائے ۔ کامیابی کو حاصل کرنے کے لیے ہر انسان اپنے طریقے سے محنت ضرور کرتا ہے ۔ یاد کریں ماں باپ اپنے ساڑھے تین چار سال کے بچے کو جب پلے گروپ میں داخل کرایا تھا بچے نے محنت کی ۔ آپ لوگوں کی کوشش رنگ لائی اور آخر کار 16 سال کی عمر میں اس نے میٹرک کیا، 18 میں انٹر کیا۔ آگے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا، انجینئرنگ یونیورسٹی میں گیا بہت اچھا انجینیئر یا ڈاکٹر بھی بن گیا بہرحال اسے کامیابی کا فارمولا نہیں مل سکا کیونکہ استاد نے اس کو دو جمع دو چار کرنا سکھایا اور ہماری کوشش بھی نمبروں تک محدود رہی۔ نمبروں کے ذریعے داخلہ تو مل گیا لیکن زندگی کے امتحان میں کامیاب نہیں ہوا جا سکتا اسی لیے عزیز والدین ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو اپنے جانے سے پہلے کامیاب انسان دیکھ سکیں۔
کامیاب انسان وہ نہیں ہوتا جو کسی زیادہ پیسے کماتا ہے یا دوسروں سے زیادہ اچھی زندگی گزارتا ہے۔ کامیاب انسان وہ ہوتا ہے جو مطمئن ہو اور دنیا کا سب سے مشکل کام بھی مطمئن ہونا۔ اس لیے کامیابی کا فارمولا یہ ہے کہ آپ اپنے بچے کو نظر انداز کرنا سکھائیں اور نظر انداز کرنا سکھانے کے لیے آپ کو خود نظر انداز کرنا پڑے گا اس کی مثال ایسے ہے کہ اگر آپ بس میں سفر کر رہے ہیں تو آپ کے پاس سامان کتنے وزن کا ہے یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔ گاڑی کا ڈرائیور یا بس یا کنڈیکٹر یا دوسری سواریاں اس بات پہ اعتراض نہیں کریں گی کہ اس کے پاس دو کلو یا پانچ کلو سامان ہے یا 10 کلو کا بیگ ہے اور اسی طرح اگر آپ ٹرین میں سفر کرتے ہیں تب بھی یہ بات معنی نہیں رکھتی کہ آپ کے پاس ایک بیگ ہے یا دو بیگ ہے لیکن اگر آپ ہوائی جہاز سے سفر کریں گے تو پھر یہ بات بہت معنی رکھتی ہے کہ آپ کے پاس سامان کتنا ہے اور جیسے ہی زیادہ سامان ہوگا انتظامیہ آپ کو روک لے گی کہ آپ ضرورت سے زیادہ سامان لے کے جا رہے ہیں۔
یہی سبق ہے زندگی امتحان میں چلنے کے لیے تو شاید آپ کے ساتھ کتنا وزن ہے یہ اہمیت نہیں رکھتا لیکن آپ اگر اڑنا چاہتے ہیں ترقی کرنا چاہتے ہیں آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو یہ بات بہت معنی رکھتی ہے کہ آپ نے اپنے ساتھ کتنی غلط چیزیں جوڑی ہوئی لوگوں کی باتیں اپنے دل کی لگائی ہوئی ہیں اس نے یہ کہہ دیا اس نے وہ کہہ دیا اس نے یہ مجھے دکھ پہنچایا اس نے مجھے یوں تکلیف دی سب باتیں آپ کی کامیابی کا راستہ روک لیتی ہیں اس لیے نوجوانوں کو یہ چاہیے نوجوانوں سے پہلے ان کے والدین کو چاہیئے کہ یہ نظر انداز کرنے کا ہنرسیکھیں غیر ضروری باتوں کو بالکل نظر انداز کر دیں۔
تجربے کے طور پہ ایک دن میں آپ 100 لوگوں سے ملتے ہیں 98،99 لوگ آپ کے ساتھ بہتر اخلاق سے ملتے ہیں ان سب کو اہمیت نہ دے کر آپ ایک شخص کی بات کو جس نے آپ کو برا بھلا کہہ دیا یا غیر ضروری غصہ کر دیا یا آپ کے باس نے 365 دنوں میں سے ایک دن آپ کے ساتھ غصے سے بات کر دی آپ اس کو دل سے لگا کے بیٹھ جاتے ہیں اور اپنی محنت کے جذبے کو کم کر دیتے ہیں کامیابی کے راستے کی طرف رکاوٹ بن جاتے ہیں ہمیں نظر انداز کرنا آنا چاہیے۔
کامیاب لوگ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں چاہے وہ کھلاڑی ہے، چاہے وہ ایکٹر ہے، چاہے وہ بزنس مین ہے ان میں یہ خوبی واضح پائی جاتی ہے کہ وہ نظر انداز کرنے کے فن میں مہارت رکھتا ہے چاہے وہ بے شک زیادہ پڑھا لکھا نہ ہو، زیادہ خوبصورت نہ ہو جسامت میں بہت بڑا نہ ہو لیکن اس کے اندر یہ خوبی اور وصف نمایاں ہوتا ہے کہ وہ نظر انداز کرتا ہے غیر ضروری باتوں کو وہ یہی سوچتا ہے کہ یار مجھ سے 98،99 لوگ سارے دن میں بہت اچھے ملے ہیں اگر ایک ادمی نے بدتمیزی کر بھی دی تو کیا فرق پڑتا ہے یہ اس کا ظرف تھا اور نظر انداز کرنے کے لے انسان کا اپنا ظرف بڑا ہونا چاہیے ۔ یہاں والدین کا کردار بہت اہم ہے۔
اعلیٰ ظرف لوگوں کی اولاد ہی اعلی ظرف ہوتی ہے۔ آپ سے کیسا رد عمل دیتے ہیں یہ اپ کا ظرف ہے یہ آپ کے والدین کی تربیت کو ظاہر کرتا ہے۔ والدین اور اساتذہ اس بات پہ غور کریں کہ بچے کو رد عمل دینا سکھائیں گالی کا جواب کبھی بھی گالی نہیں ہوتا، اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دیا جاتا۔ ہم مسلمان ہیں ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر ہمیں کر کے دکھایا کہ اخلاق کے ذریعے جانی دشمنوں کو دوست بنایا جا سکتا ہے۔ تو اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ خود کامیاب ہوں یا اگر والدین یا اساتذہ چاہتے ہیں کہ ان کے طلبہ اور ان کی اولاد کامیاب ہو تو یہ ہنر اپنے بچوں کو سکھائیں کہ وہ نظر انداز کرنا سیکھیں لوگوں کی باتوں کو دل سے مت لگائیں یہی ہماری ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہ ہمارا وزن بلا وجہ بڑھا دیتی ہیں جس سے ہماری توانائی کم ہو جاتی ہے اور ہم اپنے ہدف تک نہیں پہنچ پاتے یا اس بات کو اس طرح سمجھیں کہ ایک شخص پھلوں کے بازار میں پھل بیچ رہا تھا جس کے اوپر بورڈ لگا ہوا تھا کہ یہاں تازہ پھل بھی بیچے جاتے ہیں ایک شادی شدہ جوڑا آیا اس نے کہا کہ بھئی یہیں پہ تو بیچ رہے ہو یہاں لکھنا ضروری نہیں ہے یہ تحریر صحیح نہیں ہے اس سے یہاں ہٹا دو اس نے کہا بات تو ٹھیک ہے یہاں ہٹا دیا اس کے بعد ایک شخص آیا اس نے کہا بھئی پھل ہی تو بیچ رہے ہو پھول تھوڑی بیچ رہے ہو یہ مت لکھو کہ پھل بیچ رہا ہوں تو اس نے لکھا تازہ بیچے جاتے ہیں بھائی تازہ ہی تو ہے گلے سڑے تو نہیں ہیں تو یہ مت لکھو کہ تازہ ہے بیچے جاتے ہیں رہ گیا آخر میں ایک شخص آیا اس نے کہا بھئی بیچ ہی تو رہے ہو کوئی نمائش تھوڑی لگائی ہوئی ہے یہ لکھنا بھی ضروری نہیں ہے کہ بیچتے ہو ہٹا دو آخر کار بورڈ خالی ہو گیا۔ ایک دفعہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ اتنا بڑا بورڈ خالی پڑا ہے اس پہ کچھ لکھتے کیوں نہیں؟ اس لیے ہمیں لوگوں کی باتوں پر توجہ نہ دے کر اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے محنت کرنی چاہیے آپ کو کوئی بھی شخص آپ کے والدین کے علاوہ ترقی کرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا،،
مارٹن لوتھر کا قول ہے کہ
اگر آپ کو اڑ نہیں سکتے دوڑو
دوڑ نہیں سکتے تو چلو
چل نہیں سکتے تو رینگو پر آگے بڑھتے رہو اپنی سوچ اور سمت کو درست رکھو کامیابی آپ کے قدم چومے گی
تجربہ شرط ہے ذرا نہیں مکمل غور کیجئے گا