یار آج توریل گاڑی نے اگلے پچھلے حساب برابر کر دیے
بس یہ معاملات توشائد اب ہماری قسمت میں لکھے جا چکے ہیں
چلو! لاؤ یہ بیگ میں پکڑ لیتا ہوں
اس نے کم وزنی بیگ مجھے تھما دیا اور بڑا بیگ خود اٹھا لیا۔ میری گاڑی بھی کون سا دور کھڑی تھی۔ ریلوے اسٹیشن بھی بڑا نہیں تھا سامنے ہی تو پارکنگ تھی۔ دو چار منٹ چلنے کے بعد ہم گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔
اس نے چھوٹے بیگ کی بیرونی جیب سے ایک رومال نکالا اور اپنا چہرہ صاف کرنے لگا۔ پانی کی بوتل میں نے اس کی طرف سرکا دی۔
چلیں ؟” میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔
ہاں ہاں”
چائے وائے کا پروگرام نہیں؟
چھوڑو یار
اور غزل؟
چھوڑو، انشاءجی کم از کم ہم سے بہتر حالت میں ہونگے شہرِ خموشاں میں۔،
وہ کافی بیزار لگ رہا تھا۔ میں نے گاڑی اسٹارٹ کی تھوڑی دیر میں مین روڈ گاڑی کے پہیوں کی زد میں تھی۔ میں اس کی خاموشی اور بیزاری کا سبب جانتا تھا مگر اس وقت خاموشی کو توڑنے کی ذمےداری بھی میرے کندھوں پر آن پڑی تھی۔
چلو غزل نہیں سنانی تو کوئی اور بات کرو یار،
کیا بات کروں؟ بندہ ذلیل ہو کے رہ جاتا ہے قسم سے
اوہو۔۔ مگر۔”
تمہیں معلوم ہے ریل کا سفر میرا جنون رہا ہے۔ مگر ایسا اتفاق ہے جب بھی مجھے کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا ہے یہ گاڑی مجھے لیٹ کر دیتی ہے۔ دیر اتنی ہو چکی ہوتی ہے کہ۔،،
سنو۔۔۔ اس بار ووٹ کسے دینا ہے؟”
کسی کو بھی نہیں ۔۔ میں ووٹ دوں گا ہی نہی البتہ تم اپنی یہ کھٹارہ آلٹو کسی کباڑئیے کو بیچ آؤ۔۔۔۔”
ہا ہا ہا۔۔۔ یار حلال کمائی میں تو تمہیں پتہ ہے یہی چلے گی نا اور یہ ووٹ نہ دینے کا فیصلہ ظلم ہے ظلم ۔۔۔۔”
کیوں ۔۔۔؟”
میرے دوست! اس وطن نے تمہیں اتنا کچھ دیا اور پھر تمہارے ہی منتخب کردہ حکمرانوں نے اس ملک کا وقار، آن بان ، ساکھ سب کچھ خاک میں ملا دیا۔ آج اسی ملک کا دستور تم سے کہہ رہا ہے کہ اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرو اور اس جماعت کو منتخب کرو جو تخریب نہیں تعمیر کرے۔۔۔”
ایسی کوئی جماعت ہے بھی کیا۔۔۔؟”
یار تمہیں کئی ویڈیوز اور پوسٹس سینڈ کرتا رہا ہوں۔۔۔”
آؤ۔۔۔ اچھا ۔۔۔ جماعتِ اسلامی، یار سراج الحق کو تو میں محبتوں کا سفیر مانتا ہوں مگر انہیں کوئی آگے نہیں آنے دیتا ۔۔۔”
تم تو اپنی رائے دو نا تم سے تمہارے بارے پوچھ ہونی ہے، ابھی ابھی تم ریل کاسفر کر کے آئے ہو اس کے خراب نظام سے نالاں ہو جانتے ہو چند دن پہلے سراج الحق صاحب نے کیا اعلان کیا ہے انہوں نے کہا ہے ” جماعت اسلامی ریلوے کو خسارے سے نکالنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اسے منافع بخش ادارہ بنا سکتی ہے۔۔۔۔،،
مجھے تو حافظ سلمان بٹ نہیں بھولتا شیر تھا شیر۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔،،
اگر مگر کیا، سراج الحق صاحب نے کہا ہے حافظ سلمان بٹ کے نقش قدم پہ چلنے والا ایک ایک مجاہد ریلوے کو بچانے کے لیے پُر عزم ہے۔۔۔۔۔۔،،
پاک ریلویز تو خیر میری کمزوری ہے لیکن یہاں تو ہر ادارہ تباہ کر کے رکھ دیا گیا اسٹیل ملز، فلورملز، ٹیکسٹائلز کی صنعت۔۔۔،،
منصور! ۔۔۔۔،،
ہوں۔۔۔۔،،
مایوسی اور کرب میں ڈوبی اس کی آواز نے مجھے اندر تک ہلا کے رکھ دیا۔۔۔
میرے بھائی مایوسی کفر ہے۔ یہ سب ادارے ہمارے وطن کی قوت ہیں آؤ امید کے دئیے جلا کر محنت کو شعار بنا کر اس قوت کو بچالیں ہم۔۔۔۔۔،،
او بھائی پہلے اپنی لاڈلی کی رفتار تھوڑی کم کرو ایسا ظلم نہ کرو بے چاری پر۔۔۔۔،،
ہا ہا تمھارا مزاج خوشگوار ہونے کی خوشی میں کر لیتا ہوں دوست ۔۔۔۔،،
ناصر ! تمھیں یاد ہو گا خواجہ سعد رفیق کے دور میں پاک ریلویز کو حادثات سے محفوظ کرنے کے لیے سسٹم تیار کر لیا گیا تھا۔۔۔۔،،
بالکل ، اور پھر وہ آپریشنل نہ ہو سکا۔ جانتے ہو کیوں؟ بھئ بڑے بڑے منصوبے جوں کے توں رہتے ہیں جب تک مخلص اور ایماندار ٹیم نہ ہو۔۔۔۔،،
ہاں آں۔۔۔ واقعی واقعی۔۔۔۔۔۔ ،،
قریب پچاس ارب سالانہ خسارے میں چلنے والی پاک ریلویز نے اپنے ریسٹ ہاؤسز میں قیام کرنے والے افسران اور ملازمین کے لیے کرائے حیرت انگیز حد تک کم رکھے ہیں ستم بالائے ستم یہ کہ ان کرایوں پہ کوئ نظر ثانی نہیں ہوئ کئ دہائیوں سے۔۔۔۔آہ مالِ مفت دلِ بے رحم۔ میرے بھائ جب میدان میں سراج الحق، لیاقت بلوچ، سینیٹر مشتاق احمد، حافظ نعیم الرحمان، عبد الاکبر چترالی، مولانا ہدایت الرحمان جیسے کردار موجود ہوں تو مایوسی کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ پاک ریلویز سمیت ہر ادارہ چیخ چیخ کر صدا دے رہا ہے کہ خدارا مجھے کسی خدا ترس فرد کے حوالے کرو۔۔۔۔۔،،
یار تم نے تو میری آنکھیں کھول دی ہیں ۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ اب گھر بھی قریب آگیا ہے۔۔۔،،
لیکن تمھاری بھابی کا میسج بھی آگیا ہے کہ چائے اور پکوڑے تیار ہیں۔۔۔،،
ا۔۔۔۔۔اچھا اب بھلا تیار پکوڑے کون کافر چھوڑے گا مگر رکو یہاں سے ذرا تمھارے بچوں کے لیے کینو اور خشک میوہ جات تو لیتاچلوں۔۔۔،،
یوں کرتے ہیں کہ۔۔۔۔ یہ سب ریڑھی بان اور کھوکھا برادران نظر آرہے ہیں نا انھیں امید کی روشنی بانٹتے ہیں ۔۔۔۔۔،،
میں نے گاڑی میں سے ہینڈ بلز اور پوسٹرز نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیے۔ گاڑی ایک طرف کھڑی کی اور ہم چل پڑے ۔ اب میرے یار کا مزاج اچھا تھا لہذا غزل کے مصرعے خود ہی اس کی زبان پہ مچلنے لگے، اس کی مدھر آواز اور انشاء جی کی غزل نے ایک سماں سا باندھ دیا۔۔۔
انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو
اس شہر میں جی کو لگانا کیا۔۔۔
اس دل کے دریدہ دامن میں, دیکھو تو سہی ،سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے
اس جھولی کا پھیلانا کیا۔۔۔۔
انشاء جی۔۔۔۔۔اٹھو۔۔۔
اب۔۔