اہل فکر، اہل علم، تجزیہ نگار یا قلم کار سے جب فکری جمود اور یکسانیت کی بابت سوال کیا جاتا ہے تو گویا ان کے جوابات سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ اس وقت علمی و فکری طبقہ زبوں حالی و ذہنی پسماندگی کا شکار ہے، وہ طبقہ جو معاشرے کی برائیوں اور اچھائیوں کو قلم اور سیاہی کے ذریعے الفاظوں کی شکل میں کاغذ کی زینت بناتا ہے۔ معاشرے میں کبھی کسی بھی موضوع پر اپنے لفظوں سے معاشرتی نقطہء نظر کو واضح کرتا ہے، اور معاشرے میں موجود علمی اور فکری طبقے میں گہری سوچ بیدار کرتا ہے حتیٰ! کہ بعض اوقات بغاوت ابھارنے کا ذریعہ بھی بنتا ہے، آج وہ طبقہ ذہنی پسماندگی کا شکار کیوں ہے؟
کیا وجہ ہے کہ قلم کی طاقت روز بروز گھٹتی جا رہی ہے؟ آج ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری قلمی برادری ذہنی طور پر منفی سوچوں اور رویوں کا شکار ھو چکی ہے بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ حوادث زمانہ نے بہت برے اثرات مرتب کیے ہیں۔ آج جب کوئی قلم کار آزادانہ لکھنا چاہتا ہے تو اسے بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہماری قلمی برادری کو بھی اور اداروں کی طرح جھوٹ، بے ایمانی اور دھوکہ دہی کا سامنا ہے کسی قلم کار کی لکھی ہوئی ذاتی تصنیف کو چھپوانے کا لالچ دے کر اس میں اپنا نام کندہ کروا دینا، گھوسٹ رائٹر جیسی نوکری کو پذیرائی ملنا، کسی قلم کار کی کاوشوں کو ردی کے مول خرید لینا، کچھ لکھنے سے پہلے ہزار بار سوچنا کہ کہیں قوم پرست یا مذہب پرست آڑے ہاتھوں تو نہیں لے لیں گے، صرف یہی نہیں آج کا ڈگری یافتہ نوجوان رٹہ بازی اور نقل کے بڑھتے ہوے رجحان کے باعث ڈگری تو حاصل کر لیتا ہے مگر 18 سالوں میں اس کی ذہنی نشوونما ایسی نہیں ہو پاتی کہ وہ چند سطروں سے آگے بڑھ پائے۔
آج انٹرنیٹ پرموجود تمام علمی مواد کی صورت میں نہ صرف یہ کہ انسانی ذہن کی نشوونما پر برے اثرات مرتب ہوئے ہیں بلکہ علمی و فکری و نظریاتی صلاحیتیں بھی منجمد ہو گئی ہیں۔صرف اتنا ہی نہیں آج کا تصنیف نگار ادب اور کتاب سے بچھڑ چکا ہے، وسعت پر مبنی مطالعہ تو در کنار مطالعہ ہی میسر نہیں، جب کہ مطالعہ اور قلم لازم و ملزوم ہیں۔ ہیر رانجھا کی مانند کبھی غالب کبھی مغلوب ہیں۔ اس لیے آج قلم کار کچھ لکھنے سے پہلے دوسرے قلمکار کے علمی مواد میں سے اپنا مواد تلاش کرتا ہے، دماغ کے تمام دروازوں پر قفل لگائے منجمد سوچوں کے ساتھ اپنی تحریر رواں نہیں رکھ پاتا، صرف اتنا ہی نہیں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ پڑھنے والا کون سا مواد پڑھنا چاہتا ہے۔ آج پڑھنے والوں کی زیادہ تر شرح علمی و فکری سوچ کے دریچے کھولنے کے بجائے فحش اور عریاں تحاریر پڑھنے کو ترجیح دیتی ہے تو پھر قلم کار کیسے لکھیں؟
کیسے اپنی تحاریر متوازن کریں؟
کیسے قلم کو طاقت بنائیں؟
ہر قلم کار اپنے قلم سے فحاش اور عریاں الفاظ موتی کیطرح نہیں بکھیر سکتا ،آج بہت کم طبقہ سنجیدہ تحریر پڑھنے کا خواہاں ہے، اور معاشی و معاشرتی و اخلاقی بحران، جھوٹ، دھوکہ دہی اور اندھی تقلید، نئی تبدیلیوں اور نظریات کو نہ اپنانا اور قدیم اور پرانے خیالات سے چمٹے رہنا، شعور کے بند دریچوں کو نہ کھولنا بھی قلمی برادری کی ذہنی پسماندگی کے بڑے بڑے محرکات میں شامل ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں آج معاشرے میں قلم کار طبقے کو اپنی تحریر کی تضحیک کا بھی سامنا ہے۔ جس طرح ایک ماں کو اپنا ہر بچہ عزیز ہوتا ہے اسی طرح ہر قلم کار جب ذہن کی گود میں لفظوں کو سیاہی کی غذا دے کران کی تربیت کر کے تحریر میں ڈھالتا ہے تو وہ تحریر اسے ایک ماں کے بچے کیطرح محبوب ہو جا تی ہے۔ اس پر یہ کہہ دینا کہ کون پڑھے گا؟ کیا لکھتے ہو؟ اتنا وقت کس کے پاس ہے؟ ایک قلم کار کے ذہن میں پروان چڑھتی سوچوں کو منجمد کر دینے کے مترادف ہے۔ اور اس قسم کے منفی رویوں سے قلم کار کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں آج کے اس ڈیجیٹل دور میں کاغذی اخبارات ورسائل کے ساتھ ساتھ برقی اخبارات و رسائل کا بھی اک سلسلہ رواں دواں ہے۔ قلمکاروں کی تعداد میں بے حد اصافہ بھی ہوا ہے اور 99 فیصد اخبارات و رسائل قلم کار کو اسکی تصنیف و تخلیق کا معاوضہ بھی دینا گوارا نہیں کرتے۔ اور جو دیتے ہیں اس سے تو قلمکار کی ماہانہ سیاہی کا خرچہ بھی نہیں نکل سکتا۔ مابدولت بحیثیت استاد ایک زمانے تک اس غلط فہمی کا شکار رہی کہ پاکستان کا سب سے مفلوک الحال اور بیچارہ طبقہ، طبقہء ا۔س۔ت۔ا۔د ہے، مگر قلمکاروں کی جماعت میں شامل ہونے کے بعد یہ احساس شدت پکڑتا جا رہا ہے کہ قلم کار اس معاشرے کا ایک مفلوک الحال طبقہ ہے جسکا کوئی پرسان حال نہیں، کوئی معاشی استحکام نہیں۔ اس لیے راوی کو لگا کہ یہ آواز لوگوں تک پہنچانی چاہیے۔
بھوک افلاس اور غیر معیاری معاشرتی رویوں کے ساتھ ساتھ یہ طبقہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ اور عزت کا بھی متلاشی ہے اور یہی وہ خاص وجہ ہے کہ اہل قلم ذہنی طور پر غیر مستحکم، اور پسماندگی کا شکار ہیں۔ پاکستان میں اور پیشوں کی طرح یہ معزز پیشہ بھی بکاؤ ہو چکا ہے۔
جناب یاد رکھیے! قلم بے جان اشیاء میں بنائی ہوئی میرے رب کی وہ تخلیق ہے جو لفظ ہی نہیں رویے بھی کاغذ پر رقم کرتا ہے، کہانیاں ہی نہیں داستانیں بھی بیان کرتا ہے، بھوک و افلاس کی ننگی تصاویر ہی نہیں جرائم کو بھی بے لباس کرتا ہے، کسی کے محبوب کا ذکر کسی کی عبادتیں، کسی کے دل کی دھڑکنیں اور کسی کے جسم کے خدو خال تراشتا ہے، بغاوت پہ آجائے تو کیا فرعون کیا نمرود، حق گوئی ایسی کہ کیا کرپٹ سیاستدان و ادارے، کیا بے راہ معاشرہ، داعی بن جائے تو کیا مُلّا کیا مسجد ۔ ایک قلم اور اسکے لکھنے والے جس مصلحت پسندی کا شکار ھو چکے ھیں اور پیشوں کیطرح تو یہ مت سمجھو کہ قوت گویائی صلب کی جا چکی ہے، قفل توڑے بھی جا سکتے ہیں۔ بس ایک لمحہء گردش کے منتظر ہیں یہ قلم اور قلم کار۔
وہ جو خواب تھے میرے ذہن میں نہ میں کہہ سکا نہ میں لکھ سکا
کہ زباں ملی تو کٹی ہوئی قلم ملا تو بکا ہوا