روزنامہ جسارت اخبار میں مورخہ 12 دسمبر2023کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے ملک میں دہشت گرد گروپوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیں، جبکہ ریاست ان کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گی۔ نگراں وزیر اعظم سے وزارت داخلہ میں شہدا کے لواحقین نے ملاقات کی، ملاقات کرنے والوں میں عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخار اور ثمر بلور بھی شامل تھیں۔ انوارالحق کاکڑ نے شہدا کے لواحقین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک و قوم کے لیے قربانیاں دینے والے شہدا کو پوری قوم خراج عقیدت پیش کرتی ہے، حکومت کے پاس کوئی تمغہ کوئی ریوارڈ ایسا نہیں ہے جو شہدا کے لواحقین کے غم کا مداوا کر سکے، شہید کا اجر اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے، پوری قوم ہمیشہ شہدا کی قربانیوں کی مقروض رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ پولیس، سیاستدانوں، صحافیوں، سول سوسائٹی، طلبہ، افواج پاکستان سمیت معاشرے کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے ملک و قوم کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ نگراں وزیراعظم نے کہا کہ طاقت کے استعمال کا حق صرف ریاست کو حاصل ہے، زبان، رنگ، نسل، عقیدے سمیت کسی بھی بنیاد پر کسی بھی گروہ یا فرد کو پرتشدد کارروائیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اگر کوئی گروہ تائب ہو کر رجوع کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے وہ شہدا کے لواحقین سے معافی مانگے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیں، اگر وہ مکمل طور پر اپنی غلطی قبول اور غیر مشروط سرنڈر کریں تو ریاست فیصلہ کر سکتی ہے، اگر ایسا نہیں تو ہم سو سال تک بھی لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ریاست اپنے عوام کو ہر صورت تحفظ فراہم کرے گی اور اس کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ ملاقات میں شہدا کے لواحقین نے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت اور وزارت داخلہ کی طرف سے شہدا کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے اقدام کو سراہا اور دہشت گردی کے خلاف اپنے عزم کا اعادہ کیا۔
نگراں وزیر اعظم کا بیان کوئی ایسا بیان نہیں جس پر خوش اور مطمئن ہوا جا سکے۔ اس قسم کے بیانات جاری کرنا اب ایسی معمول کی باتیں ہو چکی ہیں کہ وہ اپنا اثر کھو چکی ہیں۔ جب مقابلے ایک طویل عرصے سے جاری ہوں اور حکومتیں کسی بھی قسم کی ایسی مؤثر کارروائی میں ناکام ہوں جو دہشت پھیلانے والوں کے دلوں کو دہلانے کا باعث بن سکیں تو پھر ان سب بیانات کی حیثیت طفل تسلیوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھا کرتیں۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق دہشتگروں کے تابڑ توڑ حملوں کے نتئجے میں 25 جوانوں کی شہادت کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ تشویشناک بات ہے کہ خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر اگر افواجِ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف پوری تیاری کے ساتھ جانے کے باوجود اتنی بھاری تعداد میں حزیمت اٹھائیں تو اس میں دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اطلاعات کے مطابق تیاری سے کارروائی کیلئے جانا نہیں ہوا یا جن ذریعوں نے افواجِ پاکستان کو دہشتگردوں کے ٹھکانوں سے آگاہی دی ان ذریعوں میں کچھ ایسے افراد بھی شامل ہونگے جنہوں نے دہشت گردوں کو بھی عسکری تیاریوں سے آگاہ کر دیا ہوگا جس کی وجہ سے عسکری قوتیں ویسی مؤثر کارروائیاں نہ کر سکیں جیسی ہونی چاہئیں تھیں۔
ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ جو گروہ ایسی کارروائیوں میں مصروف ہیں وہ کسی بھی دشمن ملک سے تربیت اور اسلحہ لے رہے ہیں اور اپنے مؤقف پراس بری طرح ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ آخری دم تک اپنی کسی ہٹ کو منوانے کا عزم رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے گرہوں سے مذاکرات کئے ہی نہیں جا سکتے اسی لئے اس کا حل اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ان کا بزورِ شمشیر قلع قمع کر دیا جائے۔
وزیر اعظم کی یہ بات بہت ہی ناقابلِ فہم ہے کہ اگر دہشتگردوں نے ہتھیار نہیں ڈالے تو وہ ان سے سو سال تک بھی لڑنے کیلئے تیار ہیں۔ کیا ایسا بیان مٹھی بھر ملک دشمنوں کے خلاف عجیب سے احساس کو جنم نہیں دیتا۔ ایک ایسا ملک جس کی افواج پوری دنیا کی چند بہترین افواج میں شامل ہیں، اس ملک کا وزیر اعظم اپنے آپ کو دہشتگردوں کے سامنے اتنا بے بس سمجھتا ہے کہ وہ ریاست سے سو سال تک لڑسکتے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ وہ ایسے عناصر کو ایک ڈیڈ لائن دیتے ہوئے خبردار کرتے کہ اگر انھوں نے غیر مشروت ہتھیار نہیں ڈالے تو وہ سب کے سب نشانِ عبرت بنا دیئے جائیں گے۔
بے شک شہدا کے لواحقین کیلئے دنیا کا بڑے سے بڑا ایوارڈ بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ شہید کا اجر اللہ ہی کے پاس ہے اس لئے لواحقین سے صبر کی اپیل ہی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ شہدا کی قربانیاں قبول کرے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سرحدوں کی نگرانی کو مزید مؤثر بنایا جائے۔ یہ تو ممکن ہے کہ ہمارے اندر سے ہزاروں دہشتگرد مل جائیں لیکن یہ بات کسی طور ممکن نہیں کہ ہمارے اسلحہ بنانے والے ادارے اور کارخانے ان کو ہتھیاروں کی فراہم کرتے ہوں۔ اس قسم کے جنگی ہتھیار فراہمی باہر کے ملکوں کی امداد کے بغیر ممکن نہیں۔ باوجود اس کے کہ دشمن ممالک کا کام ہی پاکستان کے امن و امان میں خلل ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں لیکن ہمارا کام سرحد کے اس پار سے ہونے والی ہر آمد و رفت پر گہری نظر رکھنا بہت ضروری اور فرض ہے جس میں یقیناً کہیں نہ کہیں غفلت ضرور ہو رہی ہے۔ اگر ہم اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور سرحدوں کی ہر آمد و رفت پر کڑی نظر رکھیں تو امید کی جا سکتی ہے اس قسم کی تمام دہشتگردانہ کارروائیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے لہٰذا نگراں وزیر اعظم پر لازم ہے کہ وہ حکومتی سربراہ ہونے کے ناتے ہر وہ منصوبہ بندی کریں گے جو ایسی مذموم کارروائیوں پر دسترس حاصل کرکے اس ملک کی اندرونی اور بیرونی حفاظت کو مزید یقینی بنانے میں ممد اور معاون ثابت ہو سکے۔