میرے سامنے اس عظیم ہستی کی تصویرہے جس نے علامہ اقبال کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے ایمانداری سے انتھک محنت کی اور اپنے اس مقصد سے پیچھے نہ ہٹے ،راستے میں کتنی خاردار جھاڑیاں اور رکاوٹیں ہونگی ایک طرف برٹش حکومت اور دوسری طرف ہندو مہاراج اور بنئے ،جن کی وجہ کمر جھک گئی چہرے پر وقت سے پہلے بڑھاپا مگر ضمیر نہ بکا۔
بیشک قائداعظم نے ہمارے لیڈر اور سیاست دان ہونے کا حق اداکر دیا ،میں آج کے موجودہ سیاست دانوں کے ساتھ انکا مقابلہ کرتی ہوں تو کوئی اس معیار پر نہیں اترتا سوائے چند ایک کے ،جنہیں بھی ہمارے یہ نام نہاد لیڈر اور سیاست دان آگے نہیں بڑھنے دیتے ،کیوں کہ وہ ہمارے چند لیڈر بغیر لالچ اور طمع کے صرف اور صرف وطن عزیز اور عوام کا بھلا چاہتے ہیں جبکہ ہمارے نام نہاد لیڈر نہیں چاہتے کہ وہ آگے آئیں جس کی بڑی مثال کراچی کے مئیر کا انتخاب تھا۔
اس تحریر کو لکھتے ہوئے میں چند سال پیچھے چلی گئی ہوں جب میں نے یوم پاکستان کے سلسلے میں اپنے اسکول کے بچوں کے لئے اسٹیج پر پرفارم کرنے کے لئے ایک خاکہ تحریر کیا تھا کہ اگر قائداعظم آج ہمارے درمیان ہوتے تو وہ اس ریاست اسلامی کی حالت دیکھ کر کس قدر دکھ اور صدمے سے دوچار ہوتے ،اور دوسری طرف ہمارے موجودہ سیاست دان اور حکمران ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے،اس میں ،میں نے اسی چیز کو بیان کیا تھا
بیشک آج ہماری اس ریاست میں وطن سے محبت اور وفا کرنے والوں اور قربانیاں دینے والوں کی قدر نہیں کی جاتی ،صرف قائداعظم ہی کی روح اس وطن عزیز کی موجودہ حالت پر تڑپ نہیں رہی ہوگی بلکہ علامہ اقبال کی روح بھی اپنے خواب کی تعبیر کی اس بے حرمتی پر تڑپ رہی ہوگی۔
لیکن اے ہمارے عظیم رہنما ہم اس دھرتی سے محبت کرنے والے ناامید اور مایوس نہیں ،ان شاءاللہ یہ وطن عزیز ضرور اسلامی ریاست کا روپ دھارے گی اور دشمنان اسلام کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا ہمارا سبز ہلالی پرچم سدا لہراتارہے گا قائداعظم کا پاکستان ترقی کی اس منزل پر ضرور پہنچے گا جس کےلئے انہوں نے جدوجہد کی۔