اسے اس سے محبت نہیں تھی پر وہ جب بھی اس سے بات کرتا تو یہی کہتا میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔ مجھ سے شادی کر لوں مان جاؤ نا، لیکن ایک وہ تھی کے کبھی بھی اس پر اس کی کسی بات کا اثر نہیں تھا ہوتا وہ بس باتوں ہی باتوں میں کہہ دیتی کہ میں نے کب کہا کہ مجھے سے محبت کرو یہ تمہارا معاملہ ہے تم ہی جانو، یوں ہی ایک سال گزر گیا راتوں کو جاگ جاگ کر موبائل فون پر گھنٹوں باتیں ہونے لگیں وہ ہمیشہ کی طرح یہی کہتا کہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں، تم کیوں نہیں سوچتی میرے بارے میں ایسا۔ پر وہ تھی کہ صرف ایک بات پر اٹکی ہوئی کہ میں نے کب کہا تھا کہ مجھ سے عاشقی کا روگ لگا لو، مجھ یہ چونچلے نہیں آتے اور نہ ہی میں تم سے محبت کرتی ہوں۔
یوں ہی مہینے اور سال گزرتے گئے، راتوں کو دیر تک میسجز پر باتیں ہونے لگی۔ کیا حال ہے، کھانا کھایا، اب تک سوئے کیوں نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ نا جانے کب اس گزرتے ہوئے وقت میں وہ میسجز پر باتیں کرتے اپنی زندگی میں آگے نکل گئے کے ایک دوسرے کو تصویر بھیجی جاتیں اور موصول کی جاتی جیسے جیسے وقت گزرتا گیا یہ سلسلہ طویل ہوتا گیا۔ ایسے میں کئی نیکی کے کام بھی چھوٹنے لگے۔ نمازوں میں غفلت، تلاوت سے دوری، ذکر اذکار بھی ختم ہوگیا، ہر وقت موبائل میسج اور بس اسی میں گم رہنے لگی تھی۔
انسان کو ضمیر کا دروازہ بار بار دستک دیتا مگر وہ اس پر ہے کہ وہ سنے یا نظر انداز کرے یہاں بھی کچھ ایسا تھا۔ اسے بھی اس کا ضمیر تمہیں یاد آتے ہیں نہ وہ دن جب تم نے اللہ کی راہ میں چلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جب تم نے قرآن کو پہلی بار ہدایت حاصل کرنے کے لیے پکڑا تھا۔ جب قرآن کی ایک آیت اٹک اٹک کر پڑھ کر خوش ہو جاتی تھی۔ جب تم کو اپنی خواہش کو اللہ کی خاطر قربان کرنے میں مزہ آیا کرتا تھا۔ جب تم رات کو اٹھ کر جلدی جلدی وضو کرتی اور تہجد کی نماز پڑھتی اور پھر بہت دعائیں کرتی۔ رات کے اس حصے میں رونا تمہیں یاد آتا ہے ناں؟ اور پھر جائے نماز پر ہی سو جایا کرتی تھی اور سب ہنستے تھے کہ اس کو سونے کے لیے یہی جگہ ملی تھی۔ یاد آتے ہیں نہ وہ لمحے وہ سکون، وہ خوشی، وہ اطمینان، وہ ایمان کی مٹھاس سب یاد آتا ہے نا تمہیں؟ تم اللہ سے دور آ گئی ہو اس لیے اب تمہیں وہ خوبصورت لمحے یاد آتے ہیں۔ سنو، پھر آو واپس چلتے ہیں۔ آو پھر سے کوشش کرتے ہیں، آو پھر سے اٹھو اور اللہ کی طرف قدم بڑھاو وہ تمہیں پھر سے یہ تمام لمحے واپس دے دے گا۔
لیکن اس نے ضمیر کی دستک پر کبھی لبیک نا کہا اور نفس کی پیروی کرتی رہی اور وہ اپنے نفس کی پیروی کرتی ہوئی اس قدر آگے نکل گئی کے نامحرم کی محبت کے رنگ میں رنگنے لگی، صحیح اور غلط کا فرق بھولنے لگی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا وہ اللہ سے دور اور بے سکون ہوتی گئی۔ گناہ ہماری روح کو جگہ جگہ سے زخم لگا دیتا ہے اور ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ بے چینی کی وجہ ہے کیا۔ اس میں بہت ساری منفی تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں۔ گویا اب اس کا دل عبادت بہت دور جاچکا تھا۔ اس کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی اور وہ دلدل میں دھنستی چلی گئی۔
پھرایک دن کچھ بہت عجیب ہوا جس نے ہلا کر رکھ دیا۔ وہ انسان جو اس سے محبت کے دعوے کرتا تھا، جینے کی قسمیں کھاتا، ہر لمحہ اس کے بغیر رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا اور جو کہتا تھا تمہارے لیے میں دنیا سے لڑ جاﺅں گا، خود کو ختم کردوں گا اور جانے کیا کچھ بولتا تھا۔ اچانک اس کی منگنی کا پیغام اسے ملا۔ وہ حیران رہ گئی۔ اس کی گویا زمین پاﺅں تلے سے سرکنے لگی تھی۔ سر چکرانے لگا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب سچ ہے۔ وہ حیرت کا مجسمہ بن گئی جیسے کسی نے روح قبض کر لی ہو۔
کہیں سے اسے ایک مانوس سی آواز سنائی دی۔ میں نے نہ کہا تھا کہ سب سراب ہے۔ وہ آواز اس کے ضمیر کی تھی۔ اس کا ضمیر ہی تھا جو اسے ہر اس بات پر ملامت کررہا تھا کہ جس سے اسے روکنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا زمین پھٹ جائے اور وہ اس کے اندر دھنس جائے۔ اسے یوں معلوم ہوتا کہ وہ دنیا کی سب سے ناپاک لڑکی ہے۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کے وہ چیخ چیخ کر روئے اور اپنے رب کے حضور فریاد کرے کہ اس کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟
اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ بس کھڑی ہوئی اور بے خیالی میں جاکر وضو کرنے لگی۔ دو رکعت نفل ادا کیے اور وہ روئے جارہی تھی۔ اللہ سے رو رو کر دعائیں کرنے لگی۔ اسے احساس ہوگیا تھا کہ وہ بھٹک گئی تھی، وہ اپنے رب کو منا رہی تھی، اے اللہ تیری بندی بھٹک گئی تھی۔ اے اللہ راضی ہو جا، وہ بہت بڑی غلطی کر بیٹھی تھی۔
اس نے قرآن پاک کھولا اسے یاد پڑتا تھا کہ آخری مرتبہ اس نے رمضان میں تلاوت کی تھی۔ وہ اس کو سینے سے لگا کر روتی چلی گئی۔ قرآن کھولتے ہی اس کی نظر اس آیات پر پڑی ”مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لیے مضر ہو۔ اور ان باتوں کو) خدا ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے“ (القرآن )
اس کو دیکھ کر جیسے وہ ٹھہر سی گئی اس کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے اور وہ اپنی ان دعاؤں پر پچھتانے لگی جن پر وہ نماز میں روتی تھی کہ وہ ایک ایسے شخص کا ساتھ اللہ تعالیٰ سے مانگا رہی تھی جو میرے حق میں بہتر نا تھا جبکہ اس کا حقیقی علم اللہ کو ہی تھا۔ وہ اس آیات جو پڑھ کر اللہ کے قربان جا رہی تھی کہ یاربی میری جان قربان آپ پر یاربی میں بھٹک گئی تھی مجھے ہدایت سے روشناس کر دیجیے۔ آج وہ دنیا کی ہر لڑکی کو چیخ چیخ کر بتانا چاہتی تھی کے نامحرم کی محبت خسارہ کے سوا کچھ نہیں یے۔ بے سکونی اور اللہ سے دوری کے سوا کچھ نہیں اس میں ہماری نوجوان نسل کی بے سکونی کی سب سے بڑی وجہ نا محرم کی محبت ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”زنا کے قریب بھی مت جاؤ“ زناکی طرف جانے والا پہلا اسٹیپ یہ محبت ہی تو ہے، اگر اس میں اتنی بے سکونی ہے تو آگے مزید کتنی ہو گی؟
ہمیں جس بھی چیز سے روکا گیا ہے اس میں ہماری خود کی بہتری ہے، اللہ تعالیٰ کا اس میں کوئی فائدہ نہیں اس لیے سنبھل جائیں۔ وقت کی رفتار کے ساتھ اس نے خود کو بدلنا شروع کیا اور اپنے آپ کو صبغتہ اللہ میں رنگنا شروع کردیا۔ کبھی کبھار اس کا نفس اس کو ورغلاتا لیکن وہ اپنے نفس پر قابو پاتی اور اپنے آپ کو ہمیشہ یاد دلاتی کہ جنت کی شہزادیاں مومنات دنیا کی مختصر زندگی میں تھوڑی نفس کی خوشی کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کی نعمتوں کو داو پہ نہیں لگاتیں. وہ اپنے اصلی گھر جنت کے حصول کے لیے دن رات کوشاں رہتی ہیں۔