دسمبر کی آمد کے ساتھ ہی سقوط ڈھاکا کا زخم دل میں پھر تازہ ہو جاتا ہے مگر ہم نے کبھی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا ہم نے میسور کی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا جب میر صادق کی غداری اور اقتدار کی ہوس نے ایک مضبوط اور آزاد خوشحال مسلم ریاست کو اجاڑ ڈالا اور اس کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہم نے بنگال کے واقعات سے بھی کچھ سبق نہیں سیکھا جب میر جعفر کی غداری اور حکمرانوں کی سیاسی غلطیاں ملک میں غیر اقوام کے اقتدار کو مضبوط کرتی رہیں ایسی ہی ناعاقبت اندیشیاں پاکستان کے حکمرانوں سے سرزد ہوئیں تو انہوں نے مشرقی پاکستان میں ہونے والی تبدیلیوں کو نظر انداز کیا وہاں کے سیاست دانوں اور عوام کے اندر پیدا ہونے والے احساس محرومی کو ختم کرنے کی کوشش نہ کی جو بجا طور پر دشمن کی پیدا کردہ صورتحال کی وجہ سے ہی تھی۔
بھارت اپنی سازشوں کے جال مشرقی پاکستان میں پھیلاتا رہا مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے سیاستدان اپنے ذاتی مفاد اور ہوس اقتدار کے چکر میں قومی مفاد کو نظر انداز کرکے بغاوت اور تفرقے کی سیاست کو فروغ دیتے رہے جس کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ کا دل خراش واقعہ رونما ہوا۔ سیاست دانوں کو اپنا اقتدار مل گیا مگر وہ خواب جو علامہ اقبال نے دیکھا اور قائد اعظم کی بے لوث قیادت میں مسلمانان بر صغیر نے لاکھوں قربانیاں دے کر اس کی تعبیر پاکستان کی صورت میں حاصل کی مکمل نہ ہو سکا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اس عظیم سانحے سے کچھ سبق ہی حاصل کر لیتے جو حالات اور واقعات اس کا سبب بنے ان کے سد باب کے لیے کوشش کرتے منافق چہروں اور شخصیات کو پہچان لیتے جو ملک توڑنے کا سبب بنے مگر افسوس انہی منافقین نے قوم کو دوبارہ اپنے نرغے میں لے لیا جھوٹے وعدوں اور امیدوں کے جال میں ایسا پھانسا کہ بد نصیب عوام اپنے وطن کا ایک حصہ گنوا دینے کے بعد بھی انہیں پہچاننے سے قاصر رہے اور ملک کی نام نہاد ترقی اور خوشحالی کے جھانسے میں انہی حکمرانوں کو منتخب کرتے رہے جن کی مفاد پرستی اور بدعنوانیوں نے نہ صرف ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں اورملک میں دو بڑے مارشل لاء کی وجہ سے جمہوری حکومت عدم استحکام کا شکار رہی بلکہ ملک کی نظریاتی بنیادوں کو بھی بری طرح نقصان پہنچایا ۔
آج وہی پاکستان جو دو قومی نظریہ اور اسلام کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا ایسی بدنظمی کا شکار ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ میں ٹرانس جینڈر ایکٹ جیسے غیر اسلامی قوانین منظور ہو جاتے ہیں جنہیں رکوانے کے لیے عوام کوسڑکوں پر آنا پڑتا ہے، اسلامی شرعی حدود کو عدالتوں میں چیلنج کیا جاتا ہےاور سودی نظام کو ختم کرنے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔ یہ وہی چہرے اور وہی حکمران ہیں جو ملک کی ترقی اور خوشحالی کے جھوٹے وعدے کر کے اقتدار میں آتے ہیں اور پھر ملک اور عوام کو اپنے ذاتی مفادات کےلیے اور جائیدادیں بنانے کے لیے کبھی غیر ملکی قرضوں میں جکڑ دیتے ہیں کبھی بڑی طاقتوں اور ورلڈ بینک کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں۔
آخر ایسا کب تک چلتا رہے گا کیا ہم ملک کا ایک حصہ گنوا دینے کے بعد کسی اور سانحے کے منتظر ہیں وہ سیاستدان اور حکمران جو سالہا سال برسر اقتدار رہنے کے باوجود عوام کے مسائل حل کرنے سے قاصر رہے اب بھی ہر الیکشن میں اٹھ کر دعوے کرتے ہیں کہ عوام کے تمام مسائل کا حل اور ملک کی ترقی کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں ہیں ان میں اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں کہ وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف ہی کر لیں اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک خوشحال ہو اور ترقی کرے تو کم از کم اتنی کوشش ضرور کرنی ہوگی کہ بد عنوان اور مفاد پرست سیاست دانوں کو برسراقتدار آنے سے روکیں ایسے مخلص اور باکردار لوگوں کو منتخب کر کے ایوان اقتدار میں پہنچائیں جو ملک کو اس کی صحیح نظریاتی بنیاد پر قائم کر سکیں اس وقت ملک کی جو صورتحال ہے اس کی سب سے بڑی وجہ حکمران طبقے کی نا اہلی اور بد عنوانی ہے عوام بے شمار وسائل ہونے کے باوجود بنیادی ضروریات کو ترس رہے ہیں انصاف کی فراہمی کا یہ عالم ہے کہ ایک شخص جس پر تمام جرائم ثابت ہو چکے ہوں اپنے اثرو رسوخ کی بنیاد پر عدالت سے باعزت بری ہو جاتا ہے اور مظلوم منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ بد امنی کا یہ عالم ہے کہ دن دہاڑے ڈکیتیوں کی وارداتیں ہو رہی ہیں مجرم دندناتے پھر رہے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے روکنے والا نہیں کیونکہ وہ با اثر ہیں۔
بجلی، پانی اور گیس کی بلوں نے عوام کی کمر توڑ دی ہے مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے مگر حکمران طبقے کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ان کی مراعات میں دن بدن اضافوں سے لگتا ہے کہ ملک کے عوام بہت خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے مہنگائی کے باعث عوام خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمیں ضرور ہی اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرنا ہوگا اور ہر پاکستانی کو اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔
آئندہ الیکشن میں ہمیں ضرور اپنی اور اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا اور اس کے ذریعے ایسے لوگوں کو برسر اقتدار لانا ہوگا جو ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر مقدم رکھیں اور ذاتی جائیدادیں بنانے کی بجائے خدمت خلق میں پیسہ لگانے والے ہوں جو ملکی سرمایہ عوام کی فلاح و بہبود تعلیم و ترقی اور خوشحالی کے لیے خرچ کریں ایسے قوانین پاس کرائیں جو ملکی معیشت کی تعمیر و ترقی میں معاون ہوں قوم کو ایک بار پھر موقع ملا ہے کہ وہ اپنے لیے اچھے حکمرانوں کو منتخب کر کے اس ملک کی تقدیر بدلنے کی کوشش کریں اور اسے ایک اسلامی فلاحی ریاست بنا دیں۔
ملک میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں اور ملک کے لیے ہر قربانی دینے پر تیار ہیں جو ملک میں اسلامی نظام قائم کرنے کی صلاحیت اور حوصلہ رکھتے ہیں اور عوام کی صحیح نمائندگی کا حق ادا کرنے والے ہیں ایسے لوگ اگر اسمبلی میں آجائیں تو وہ ایسے قوانین بنا سکتے ہیں جو ملک کو خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں اور ہمارا ملک صحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بن جائے مگر اس کے لیے ہمیں خود کوشش کرنی ہوگی اپنی اور اپنے ووٹ کی طاقت کو استعمال کرنا ہوگا اور ایسے ایماندار اور باکردار لوگوں کو اقتدار میں لانا ہوگا جو پاکستان کے عوام اور امت مسلمہ کی صحیح نمائندگی کر سکیں جیسا کہ شاعرِمشرق نے کہا کہ،،،،،،
تیری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی
مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے
تیری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں کہ یہ چار سو بدل جائے