پاکستان ہو یا کوئی اور ریاست اس کا پہلا فرض ہے کہ وہ اپنے ملک میں بچوں کو تعلیم فراہم کرےکیونکہ تعلیم ترقی کی بنیاد ہے .بنیاد مضبوط ہو تو معاشرہ مضبوط ہوگا،ریاست مضبوط ہوگی۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک ہے جہاں بہت کچھ کنٹرولڈ ہے، پچھلے چند برسوں سے مختلف ادوار میں تعلیم کے حوالے سے پالیسیز تو بنی ہیں مگر ان پر عمل درآمد آج تک نہیں ہوا ہے، پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد کے مطابق 18ویں ترمیم میں تعلیم کو بنیادی انسانی حقوق میں شامل کیا گیا اور پالیسی یہ بنائی کہ 2015ء تک تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کے سات فیصد تک بڑھا ئیں گے اور ٹیکنیکل تعلیم کو سیکنڈری سطح پر پچاس فیصد تک لے جائیں گے مگر حقیقت میں ایسا آج تک ہوا نہیں ۔یہ تعلیم کے نظام اور حکومت کی ترجیح پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے . گزشتہ دنوں عالمی اردو کانفرنس کے دوران آرٹس کونسل کراچی میں ایک سیشن بامقصد تعلیم کے نام سے منعقد ہوا تھا جس میں موجودہ وزیر تعلیم سندھ نے بھی شرکت کی .پینل کی باتوں سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ گزرتے وقت میں تعلیم پر جتنی توجہ دینی چاہیے تھی اتنی توجہ نہیں دی گئی .کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ لٹریچر، صحافت اور تعلیم کے لحاظ سے لاہور اور اسلام آباد کے بعد شہر کراچی علوم کا مرکز سمجھا جاتا ہے مگر بد قسمتی سے تعلیمی نظام پر عدم توجہ کی وجہ سے سندھ اور خاص طورپر کراچی کے تعلیمی نظام میں خرابیاں جنم لے رہی ہیں، نگراں وزیر تعلیم سندھ نے بامقصد تعلیم کے سیشن میں کہا کہ میں نے اچانک ایک کالج کا دورہ کیا تو پتہ چلا کہ وہاں روزانہ صرف دو اساتذہ آتے ہیں اور بچے نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں. جب کراچی شہر میں تعلیم کا یہ حال ہے تو باقی سندھ میں کیا حال ہوگا۔
اس سے سابق حکومت کی کارکردگی ظاہر ہوتی ہے کہ اس کی تعلیم پر توجہ کتنی تھی. کیونکہ کچھ ذرائع کے مطابق کہ سندھ میں وائس چانسلر میرٹ سے زیادہ پیسے دیکر تعنیات ہوتے ہیں.ہم اکثر ہر چیز میں پاکستان کا موازنہ بھارت سے کراتے ہیں۔ بابر اعظم کا موازنہ ویرات کوہلی سے کراتے ہے مگر ہم ان چیزوں میں موازنہ نہیں کراتے ہیں جن میں ہم انڈیا سے پیچھے ہیں ۔تعلیم میں موازنہ کرانا اس لیے ضروری ہے کہ اس سے شعور، ترقی، تہذیب اور میرٹ کی پہچان ہوتی ہے۔ یونیسف کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ تیس لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں اور بھارت میں ایک بھی بچہ محروم نہیں ہے ۔بھارت میں تعلیم مفت ہے اور پاکستان میں تعلیم مفت تو کیا جامعات میں لڑکوں کے ہاسٹل پر سیکورٹی اداروں کے قبضے ہیں اور طلباء پرائیویٹ ہاسٹلوں میں رہتے ہیں۔ ان سے بھاری بھاری فیس لیے جاتی ہیں بہت سے بچے میڑک کے بعد تعلیم چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ کالج اور جامعات کی فیس ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔ ہر حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے مگر کارکردگی صفر ہے۔21 ویں صدی کا تقاضا یہ ہے کہ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل اور جدید کورسز مترادف کرایا جائے۔ پاکستان کے جامعات میں طلبہ بنیادی چیزوں کی کمی شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔ ان کے پاس لائبریریوں میں جدید کتابیں نہیں ہیں، ڈیجیٹل لائبریریاں نہیں ہیں جن میں طلبہ بیٹھ کر دنیا کی ہر قسم کی جدید ٹیکنالوجی، نئی کتاب اور ریسرچ جرنل پڑھ سکیں۔ ریاست اور حکومت کی جانب سے تعلیم پر خصوصی توجہ نہ دینے کی وجہ سے ہماری ٹیکسٹ بک جدید نہیں ہے۔ وہی ٹیکسٹ بک پڑھائی جاتی ہے جودس پندرہ سال پہلے پڑھائی جاتی تھیں۔
اسی طرح حکومت تعلیمی ماحول کو بہتر کرنے کے۔ بجائے جامعات میں اضافہ کرتے جارہی ہے ۔ اسی سال جب پی ڈی ایم کی حکومت تھی تو قومی اسمبلی سے پی ڈی ایم کی حکومت نے آخری دنوں میں 28نئی نجی جامعات کا بل پاس کرایا تھا، بجٹ میں ایک روپیہ کا اضافہ نہیں ہوتا اور نجی جامعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جامعات کے اند ر ماحول کا یہ حال ہے کہ طلبہ خود کشیاں کررہے ہیں۔ طلبہ میں تحقیق، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اورٹیکنالوجی کا فقدان ہے۔ لاکھوں بچوں کے ہاتھوں میں ڈگریاں ہیں مگر مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق ہنر نہیں ہیں۔ پاکستان میں معیشت اتنی تباہ حال ہے کہ سرکاری اور نجی کمپنیوں میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ جامعات کے فارغ التحصیل نوجوانوں کو نوکریاں دے سکیں۔ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں اساتذہ کو تعلیمی قابلیت کے مطابق بھرتی نہیں کیا جاتا۔ مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق طلبہ کو تعلیم نہیں دی جاتی ہیں۔ بہت سے اداروں میں اساتذہ کی کمی ہے۔ مختصر یہ کہ الیکشن قریب ہے، عوام ان امیدواروں کو منتخب کریں جو کل اقتدار میں آکر تعلیمی نظام کو ٹھیک کرسکیں ورنہ تعلیم سے محروم پاکستانیوں میں اضافہ ہوگا اور تعلیم کا حال مزید خراب ہوگا۔