نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ صاحب نے کچھ عرصے پہلے اپنے ایک انٹرویو میں فرمایا کہ فلسطین کے مسئلہ کا واحد حل صرف دو ریاستی فارمولہ ہے، یعنی کچھ حصہ بھیک میں وارثین اور مالکان کے حوالے کیا جاۓ اور باقی غاصبین کے حوالے کیا جاۓ ۔ایک طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔اور دوسری جانب ایسا بیان معنی خیز ہے۔ 1948 میں بننے والی اس ناجائز ریاست کو اس ملک کے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے قبول نہیں کیا۔ اس بات کی گواہی اس ملک کا پاسپورٹ دیتا ہے تو آج اسرائیل کے لیے نرم گوشہء رکھ کر مظلوم فلسطینیوں کی دل آزاری کا حق آپ کو کس نے دیا محترم نگران وزیر اعظم صاحب ،یہ بیان صرف معنی خیز ہی نہیں گھمبیر بھی ہے۔
اب آئیے آگے بڑھتے ہیں 6 سمبر 2023 کو اسلام آباد میں ایک بہت بڑا اجتماع ہوا۔ اقصیٰ اور اُمت مسلمہ کی زمہ داری اس اجتماع کا بنیادی مقصد اس بات کو واضح کرنا تھا کہ دو ریاستی فارمولا اس مسئلہ کا حل نہیں اور اس مسلہ کا حل صرف زبانی کلامی بھی ہر گز نہیں۔یہ قضیتہ جو اسرائیل نے آج سے 75 سال پہلے کھڑا کیا۔ اب اس قضیتے کے اختتام کا وقت ہے۔ اور اس کے اختتام کا واحد حل صرف جنگ ہے۔ جب تک اسرائیل اپنا ناجائز قبضہ فلسطین سے ختم نہیں کر دیتا جنگ جاری و ساری رہنی چاہئیے۔ او آئی سی جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے لیکن علماء کرام نے یہ بات ثابت کر دی کہ جنگ بندی اس کا حل نہیں۔
مشرق وسطیٰ میں جو آگ امریکہ کے اس ناجائز بچے نے لگائی ہے اس آگ کے بجھانے پر اقوام متحدہ کا بھی اختیار نہیں۔ اور دنیا کے تمام حفاظتی ادارے کشمیر، فلسطین شام میں مسلمانوں کی جان بچانے میں کامیاب نہیں تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ادارے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے نہیں بناے گۓ، انسانیت کی مدد کے لیے نہیں بناے گۓ بلکہ یکطرفہ بنیادوں پر خاص قوم و نسل کی حفاظت کے لیے بنائے گئے ہیں ۔ ماضی کا افغانستان، عراق ،کشمیر،بوسنیا، شام ،روہنگیا اور اب فلسطین اس قومی و نسلی فرقہ پرستی کا واضح ثبوت ہے۔
جس طرح کی ظلم و بربریت اس وقت فلسطین میں جاری ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ مقصد جنگ نہیں مسلمان فلسطینیوں کی نسل کشی ہے۔ یہ وقت اپنے اسلحہ جات باہر نکالنے کا ہے نگران وزیراعظم صاحب بات صرف فلسطینی مسلمانوں کی نہیں، اقصیٰ کی حفاظت کی ہے۔ پاکستان کا تمام دفاعی نظام عوام کے ٹیکس کی مرہون منت ہے۔ اور جو دفاعی نظام مسلمانوں کی عظیم، معتبر اور مقدس مقامات اور مسلمانوں کی تاریخ اور قبلہ دوم کی حفاظت نہ کر سکے تو سواے شرم کے مقام کے کچھ باقی نہیں رہتا۔
مسلمانوں اقصیٰ پکار رہی ہے۔ جب قومیں بزدل ہو جاتیں ہیں تو لفاظی کرتیں ھیں، قلم یا زبان کے جہاد کو ترجیح دیتی ہیں۔ راقم بھی ایک عام پاکستانی ہے اقصی کے دکھ پر فلسطینیوں کے دکھ پر غمزدہ، افسردہ قلم کے جہاد پر مجبور کسی صلاح الدین ایوبی کی منتظر، لیکن رکیے ! راقم سمجھتی ہے کہ ابو عبیدہ صلاح الدین ایوبی کی جدید مثل ہے۔ اللہ مسجد اقصیٰ اور فلسطینی مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔ آمین