ویسے تو چاہے جانا ہر رشتے کی روح ہے۔۔۔۔۔جیسے روح کے بغیر جسم بیکار ہے ایسے ہی چاہت کے بغیر رشتے مرجھا،کملا جاتے ہیں۔
بچے سے جتنی چاہت کا اظہار ہو اتنا ہی وہ پھلتا پھولتا ہے۔ دوست، دوست سے اظہار الفت کا متقاضی رہتا ہے۔،یہاں تک کہ پھول،پودے اور جانور تک محبت کے لمس کو محسوس کرتے ہیں۔ رب اور رسول بھی اسی چاہت کو ایمان کا روپ عطا کرتے ہیں۔
چاہت، محبت، انسیت، الفت، پیار سب اک دوجے کے مترادف ہیں اور سبھی دنیا کے سب سے خوبصورت جذبے کا اظہار ہیں۔ غرض چاہنا اور چاہے جانا ہر ذی روح کا تقاضا ہے۔ یہی چاہت جب بڑھتی ہے تو محبت سے عشق اور عشق سے جنون کے مدارج طے کرتی ہے۔ محبت حقیقی ہو توعبد کو معبود کے خلیل اور حبیب کا درجہ عطا کر دیتی ہے۔ اور اگر مجازی ہو تو اس کا بہترین اظہار ۔ زوجین ۔۔۔۔کے روپ میں ہوتا ہے۔ یہ وہ محبت ہے جسے عرش والا بھی پسند کرتا ہے۔ جب یہ تنہا ہوں تو فرشتوں کا داخلہ بھی روک دیتا ہے۔ ان کے باہمی ملن کو اجر بنا دیتا ہے۔ اور اظہار محبت میں مبالغہ اور جھوٹ بھی جائز قرار دیتا ہے۔ ان کی محبت میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو شیطان قرار دیتا ہے۔ ان کے درمیان نزع ختم کرانے والے کو انعامات سے نوازتا ہے۔
زوجین کی باہمی محبت و مودت و رحمت۔۔۔۔۔ فریقین کی ضرورت ہے۔ کوئی ایک فریق بھی اس کے بناء ہشاش بشاش نہیں رہ پاتا۔ دنیا کے ہر دوسرے رشتے کی طرح اس کی چاہت میں جہاں اور جب کمی آتی ہے تو نفسیاتی و معاشرتی مسائل ، ڈپریشن، ذہنی عوارض اور جسمانی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
افراد فطرت سے بغاوت کر کے غیر فطری زندگی زیادہ عرصہ جی نہیں پاتے۔اسی طرح افراط و تفریط کا شکار ہو کر بھی بہت سے مسائل میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں یہ رشتہ بہت سی ضروری اور کچھ غیر ضروری حدود۔ و قیود اور ذمہ داریوں کی وجہ سے بہت جلد مرجھانا شروع ہو جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں میں صرف ذمہ داریاں اور فرائض رہ جاتے ہیں اور محبت و چاہت کہیں گم ہو جاتی ہے۔
نتیجتاً معاشرہ آئے دن ان چاہے گھرانوں سے بھرتا چلا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ رشتہ صرف جسم کا نہیں روح کا رشتہ ہے سو اس کو زندہ رکھنے کے لیےمحبت کے دو بول یقیناً عمر کے ہر دور میں امرت دھارا ہیں۔
ہاں ان بولوں میں گزرتے وقت کے ساتھ فرق ضرور آ سکتا ہے لیکن اس کی اہمیت سے انکار ہر گز نہیں کیا جا سکتا ۔ تم سا حسیں کوئی نہیں ۔۔۔سے ۔۔۔۔”تم بہت اچھی ہو ،میرے اور میرے گھر کے لیے خود کو تھکاتی ہو”۔۔۔۔۔”آپ بہت اچھے ہیں میرے اور میرے بچوں کے لیے خود کو اتنا ہلکان کرتے ہیں”۔
اور پھر۔ زندگی کتنی حسیں ہے ۔۔۔ آپ اور میں اور چائے کے یہ کپ ہماری زندگی کے یاد گار لمحے ہیں۔”
اس کے بعد۔۔۔۔۔ اللہ کا شکر کہ اس نے ہمیں اپنا ساتھ اچھے سے نبھانے کی توفیق دی۔
یہ وہ آئیڈیل جملے ہیں جو اس آئیڈیل رشتے کو ہمیشہ زندہ رکھ سکتے ہیں۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں پہلے دو سال۔۔۔۔۔ لیلی مجنوں کی داستاں۔
اگلے پندرہ سال ایک دوسرے کو خاندان کے طعنے دیتے اور ایک دوسرے کی خامیاں جتاتے گزرتے ہیں۔۔۔ اس دوران بیشتر مرد ادھر ادھر کے آپشنز میں گزار دیتے ہیں اور بیویاں بچوں پر اپنا اسٹریس اتارتے گزار دیتی ہیں۔
عموماً شادی کے بیس سال بعد میاں بیوی کی الگ الگ کمرے ہوتے ہیں۔۔۔ اگر کبھی غلطی سے آمنا سامنا ہو جائے تو سانڈھوں کی طرح گھورتے گزرتے ہیں یا اگر کبھی اکٹھے بیٹھ جائیں تو اختتام ایک نٹے زور دار جھگڑے پر ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔غلطی سے اگر کبھی مل کر ہنس پڑیں تو بچے اچنبھے کا شکار ہو جاتے ہیں کہ شاید اماں ابا سٹھیا گئے ہیں۔
شادی کے تیس سال بعد دونوں میں سے ایک لڑھک جاتا ہے اور دوسرا اپنی غلطیوں پر کف افسوس ملتے گزار دیتا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کے متوسط طبقےکے ہر تیسرے گھر کی کہانی ہے۔ اس رشتے میں غیر ضروری شرم بھی رشتے کی خوبصورتی بگاڑ دیتی ہے اور حد سے زیادہ بے باکی بھی حسن کو گہنا دیتی ہے۔
سو رب کو حاضر ناظر جان کر، اس کے کلام کی روشنی میں باندھے عہد کو وفا بھی اسی کی ھدایات کی روشنی میں کریں۔ یقین کیجیۓ اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس سے خوبصورت دنیا کا کوئی رشتہ نہیں۔۔۔۔۔۔ایسے گھرانے میں پلنے والے بچوں کو پھر دنیا پر حکومت کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔
چاہتوں سے باندھے اس بندھن کو ہمیشہ اپنی چاہت سے امر کیجیئے ۔ رب آپ سے راضی ہو ۔
ہر نئے جوڑے کے نام۔۔۔۔۔۔محبتوں کا پیام