انیسہ ! باجی آپ سے ایک بات کرنی تھی؟ ہاں ہاں بولو کیا بات ہے۔ انیسہ نے چاروں طرف بیٹھی خواتین کو دیکھا جو درس ختم ہونے کے بعد آپس میں باتیں کر رہی تھی، وہ میرے کچھ اور قریب آکر بیٹھ گئی، باجی آپ بلقیس باجی کی کچھ مدد کرسکتی ہیں، (کچھ لمحے رک کر) وہ آج کل بہت پریشان ہے ایک تو بیچاری بیوہ عورت پھر مطلقہ بیٹی دو بچوں کے ساتھ، بیچاری بہت پریشان ہے، میں نے سوچا اپ اگر… میں انیسہ کی بات سن کر شرمندہ ہوگئی کہ ہم اپنے اس پاس سے کس قدر بے خبر رہتے ہیں، انیسہ کی پھر آواز آئی، باجی میں تو اس کی مدد نہیں کر سکتی، میں نے سوچا آپ کو کہوں، آپ کسی طرح،،،،
میں نے اپنا انیسہ کے ساتھ موازنہ کیا تو وہ مجھے زیادہ نیک نظر آئی جو اس نیکی کے کام میں وسیلہ بنی۔ معذرت کے ساتھ ایک بات کہوں گی کہ فی زمانہ ہم نے عبادات کی زیادتی کو نیکی سمجھا ہوا ہے، فرض کے بعد نوافل کی بھرمارعمرہ حج سب کثرت سے ہو رہے ہیں لیکن معاملات زندگی میں ہم بالکل کورے رہ جاتے ہیں میں غلط نہیں کہہ رہی ہوں میں اپنے آس پاس اسی قسم کی صورتحال دیکھ رہی ہوں بلکہ اگر سچ کہوں تو یہ کوتاہی ہم سب سے سرزد ہو رہی ہے کہ ہم میں سے اکثریت پانچ وقتہ نمازی بلکہ نوافل اور دوسری عبادات میں آگے آگے ہوتے ہیں لیکن ہمیں اپنے آس پاس تکلیف میں مبتلا کئی چہرے نظر آتے ہیں مگر ہم انہیں نظر انداز کرکے اپنی زندگی اور اپنی ضروریات کو اہمیت دے رہے ہوتے ہیں، ہاں اگر ایک بندہ دوسرے کی مدد کرنے کے قابل نہیں ہے تو وہ الگ بات ہے لیکن اگر صاحبِ حیثیت ہے لیکن سامنے والے تکلیف میں مبتلا فرد کی مدد نہیں کر رہا تو چاہے وہ کتنا ہی عبادت گزار عابد اور پارسا ہو وہ نیک نہیں ہے۔
نیکی تو یہ ہے کہ آپ صاحبِ حیثیت ہیں اور آپ کے سامنے ایک شخص بھوک سے تڑپ رہا ہے آپ فوراً اس کی مدد کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں اور اسکی ضرورت پوری کر رہے ہیں تو یہ آپکی نیکی ہوگی اور یہاں میں ایک اور بات کا اضافہ کرونگی کہ مدد بھی اس طرح ہو کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو معلوم نہ ہو یعنی ریاکاری اور دکھاوے کے بغیر، صرف اللہ کو معلوم ہو ایسی نیکی میرے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں قابل قبول ہوتی ہے اور ہماری نیکیوں کا پلڑا بھاری کرتی ہے آئے دن میڈیا پر تصاویر کے ساتھ خبریں سامنے آتی ہیں کہ فلاں نے بیوہ یا یتیموں کی مددکی آپ غور سے اس تصویر میں اس بیوہ خاتون کی بےبسی کو دیکھ سکتے ہیں یہ کس قسم کی نیکی ہے جو دوسرے کی بےبسی کو بے نقاب کر رہی ہے اگر ہم اپنی نیکیوں کا پلڑا واقعی میں بھاری کرنا چاہتے ہیں تو عبادات کے ساتھ ساتھ حقوق اللہ اور حقوق العباد حکم الہی کے مطابق اپنی زندگی میں شامل کرلیں، یہ ہماری نیکی ہوگی اور اسی سلسلے میں ہم سے پوچھا جائے گا نیکی کا معیار عبادات نہیں بلکہ اللہ کے بندوں کی مدد کرنا بھی ہے۔