کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے نوجوان ایک سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جوانی میں انسان کے پاس علم، طاقت، ذہانت، جوش، ولولہ اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ موجزن رہتا ہے۔ اگر نوجوان اپنی ان تمام صلاحیتوں کو مثبت طریقے پر استعمال کریں تو وہ معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جبکہ یہی صلاحیتیں اگر منفی رخ اختیار کر لیں تو معاشرہ بگاڑ اور انتشار کا شکار ہو جاتا ہے بعض اوقات نوجوانوں کو وہ ماحول ہی میسر نہیں آتا جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں۔
پاکستان کا نوجوان بھی ایسے ہی حالات سے دوچار ہے جہاں وہ اپنی علمی قابلیت اور ذہانت کی بنیاد پر ڈگری تو حاصل کر لیتا ہے مگر ماحول سازگار نہ ہونے کی وجہ سے اس کی ڈگری کی حیثیت ایک کاغذ کے ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں ہوتی پچھلے چند سالوں میں نوجوانوں کا بیرون ملک جانے اور وہاں سکونت اختیار کرنے کا رجحان جس تیزی سے بڑھا ہے اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔ خواہ نوجوان پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ ان کو یہاں اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آتا اول تو ڈگری اور میرٹ کی بنیاد پر سرکاری نوکریوں کا ملنا نا ممکن ہے کیونکہ عموماً بھرتیاں سفارش یا رشوت کی بنیاد پر ہی کی جاتی ہیں، انٹرویو کے لیے بلایا تو ضرور جاتا ہے مگر محض خانہ پری کے لیے۔ سلیکشن تو پہلے ہی ہو چکی ہوتی ہے۔ پرائیویٹ اداروں میں اگر خوش قسمتی سے نوکری مل بھی جائے تو ملک میں پھیلی بدامنی، چوری، ڈاکہ زنی، موبائل چھیننے کی وارداتیں، گیس بجلی کی لوڈ شیڈنگ، بے ہنگم ٹریفک یہ سب مل کر اچھے بھلے انسان کو ڈپریشن میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق 2023 میں تقریبا آٹھ لاکھ نوجوان بیرون ملک ہجرت کر گئے۔ پچھلے دنوں بہتر مستقبل کے سنہرے سپنے سجائے نوجوانوں کا ایک گروپ یونان میں کشتی ڈوبنے سے ہلاک ہو گیا۔ اسی طرح غیر قانونی طور پر ترکی سے اٹلی جانے والے کئی پاکستانی نوجوان چٹان سے کشتی ٹکرانے کے سبب اپنی جان کی بازی ہار گئے اور ان کے خواب ان کے ساتھ ہی سمندر کی نذر ہو گئے۔ اللہ ان سب کی مغفرت فرمائے۔
ملک میں سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے بھی پڑھے لکھے نوجوانوں کا بڑا طبقہ جو کہ ڈاکٹر، انجینیئر، اکاؤنٹنٹ یا آئی ٹی پروفیشنلز پر مشتمل ہے بیرون ملک روزگار کو ترجیح دے رہا اور اپنے ملک کی خدمت کرنے کی بجائے دیگر ممالک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر ایسے اقدامات کیے جائیں کہ ہمارے نوجوانوں کو اپنے ملک میں ہی مستقبل محفوظ نظر آنے لگے۔ سب سے پہلے تو ملک میں سیاسی استحکام لایا جائے تاکہ غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہو سکے.
ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر کیا جائے تاکہ لوگ اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کو محفوظ تصور کریں۔ بڑے بڑے کاروباری حضرات جنہوں نے ملک سے باہرکاروباری یونٹس لگائے ہوئے ہیں ان کو ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے ملک میں کاروبار کریں تاکہ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم ہو سکیں۔
اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر کیریئر کاؤنسلنگ کی جائے تاکہ جوطالب علم پروفیشنل ایجوکیشن حاصل کرنے میں بوجوہ ناکام ہو جائیں تو وہ اپنے مستقبل سے مایوس نہ ہوں بلکہ ان کے سامنے روزگار کے سیکڑوں اور مواقع موجود ہوں اس ضمن میں طالب علموں کو اپنا کاروبار شروع کرنے یا تجارت کرنے کے طریقے بھی سکھائے جانے چاہئیں کیونکہ ہمارے ہاں اسمال بزنس کے نام پر قرضے تو فراہم کیے جاتے ہیں مگر کاروبار کی الف، ب معلوم نہ ہونے کی وجہ کر اکثر نوجوان اپنا سرمایہ گنوا دیتے ہیں. سیانے کہتے ہیں “نوکری خواہ وہ پانچ لاکھ کی بھی ہو, صرف ایک خاندان کو پالتی ہے جبکہ کاروبار نسلوں کو سنوارتا ہے” لیکن یہ اناڑیوں کا نہیں بلکہ کھلاڑیوں کا کام ہے۔
پاکستان میں الحمدللہ ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان کی قدر کرنے والے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان اپنے مستقبل سے مایوس ہو رہے ہیں اور دل برداشتہ ہو کر ارض وطن کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی اگر ہم اپنے نوجوانوں کو نا امیدی اور مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر اپنے ملک میں ہی سازگار ماحول فراہم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے مستقبل کے معمار اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں شامل کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ،،،
“ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی”