بلوچستان کے بارے میں ہم اکثر سنتے اور کہتے ہیں کہ اس صوبے میں لاتعداد معدنیات ہیں مگر پھر بھی بلوچستان میں محرومیاں، پسماندگی، بےروزگاری اور ناقص تعلیمی نظام اس بات کا ثبوت ہے کہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ صحیح حکمرانی کی کمی بہت ذیادہ ہے۔
اس صوبے پر نواب اور سردارلمبے عرصے سے حکمران رہے ہیں اور وہ اکثردعوے یہ کرتے ہیں کہ صوبے کے ساتھ وفاق اور ریاست کی طرف سےزیادتیاں ہورہی ہیں مگر وہ یہ نہیں کہتے ہیں کہ بلوچستان کی محرومیوں کے ذمہ دار وہ خود بھی ہیں کیوں کہ اگر وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ بھی ذمہ دار ہیں تو پھر ان سے حساب لیا جائے گا اور وہ حساب دینے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہیں۔ بلوچستان کے نواب،سردار اور طاقت ور لوگوں سے سوال یہ بنتا ہے کہ جو مسائل ان کے ہاتھ میں ہیں جو وسائل وہ حل کر سکتے ہیں وہ مسائل وہ حل کیوں نہیں کرتے ہیں؟ اس کا جواب لینے سے پہلے بلوچستان کی سیاست اور سردار، نواب کے رویوںپر نظر ڈالنا ضروری ہے ۔بلوچستان کی سیاست میں اکثر وہ لوگ ہیں جو اباواجداد سے سردار اور نواب ہیں۔وہ منتخب بھی اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ انتخابات میں وفاقی اور صوبائی سیٹوں کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے ہیں۔ وہ لوگوں کے پاس ووٹ مانگنے کے لیے نہیں جاتے ہیں بلکہ ووٹرز ان کے پاس آتے ہیں اور ان کو ووٹ دینے کی یقین دہانی کراتے ہیں۔
یہی سردار اور نواب اپنے علاقے میں جج بھی ہیں، حکمران بھی ہیں اور ریاست بھی کیوںکہ علاقے میں قانون سے زیادہ ان کی چلتی ہیں، جج سے زیادہ فیصلے وہ کرتے ہیں،ریاست سے زیادہ ان کی رٹ چلتی ہے۔ اس کی مثال سردار عبدالرحمٰن کھیتران کے بیٹے کی جانب سے سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی ویڈیو میں صاف نظرآرہا ہے کہ فیصلے کون کررہا ہے ۔یہ صرف ایک سردار کی مثال نہیں ہے بلکہ اسی طرح کئی مثالیں موجود ہیں۔کیمرے کے سامنے آکر باتیں کرنے سے حقیقت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے۔
کیمرے کے سامنے ہر ایک کہتا ہے کہ مجھے عوام کی بڑی فکر ہے مگر حقیقت میں وہ ایسا نہیں ہوتا ہے۔ جہاں تک بلوچستان کے نوابوں اور سرداروں کی بات ہے وہ تو ہر سردار اور نواب کہتا ہے کہ مجھے اپنے حلقے کا بہت احساس ہے مگر وہی سردار ،نواب کا حلقہ پسماندگی، محرومی اور بے روزگاری کی داستان سناتا ہے تعلیم تو دور کی بات صاف پانی تک میسر نہیں ہے ۔ بلوچستان کے بہت سے ایسے سردار اور نواب ہیں جو 25، 30 سال سے منتخب ہوتے آرہے ہیں مگر ان کے آبائی علاقوں میں کوئی جاکر دیکھ لے اس کو پتھرکا دور یاد آجائے گا۔جو ہم نےاکثر اسلامی کتابوں میں پڑھاہے۔
دوسری جانب بلوچستان کا نوجوان طبقہ بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ بلوچستان میں روزگار ہے اور نہ ان کے پاس روشن مستقبل ۔ سردار اور نواب سمیت چند لوگ کروڑ اور ارب پتی ہیں اور اکثر عوام غریب، بے روزگار اور غیر تعلیم یافتہ ہیں ۔ مقامی روزنامے کے مطابق تعلیم میں سب سے زیادہ ناخواندگی بلوچستان میں میں ۔ لڑکیوں کی تعلیم کی شرح 35فیصد سے بھی کم ہے اور لڑکوں کی تعلیم 40 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تعلیم پر حکومت بلوچستان خاص توجہ نہیں دے رہی ہے اور حکومت بلوچستان میں اکثر سردار اور نواب ہوتے ہیں۔ایک مشہور قول ہے کہ اگر آپ حکمرانی کرنا چاہتے ہیں تو اپنے لوگوں کو پسماندہ، غریب اور جاہل رکھیں ، ان کو تعلیم نہ دیں اور آپ حکمرانی کرتے رہیں۔
بلوچستان میں سرکاری اسکولوں پر اتنا زیادہ کنڑول محکمہ تعلیم کا نہیں ہوتا ہے جتنا نواب اور سردار کا ہوتا ہے۔ اسکول میں استاد سردار اور نواب کے کہنے پر ٹرانسفر ہوتا ہے نہ کہ محکمہ تعلیم کی پالیسی کے مطابق۔ بلوچستان کے سردار اور نواب اکثر عوام سے گلہ کرتے ہیں کہ ان کو ہمیشہ ٹارگٹ کیا جاتا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سردار اور نواب ہر دور میں وفاق اور صوبے میں حکومت کا حصہ رہے ہیں، لیکن افسو س کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بلوچستان کے بہت سے ایسے علاقے ہیں جن کو لوگ بارش کا پانی زمین میں گڑھے گھود کر جمع کرتے ہیں اور پھر وہی پانی پیتے اور باقی ضروریات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تو کیا ان سرداروں اور نوابوں سے یہ سوال نہیں بنتا ہے کہ 70 سالوں سے ان کی کارکردگی کیا ہے؟انہوں نے اپنے صوبے میں محرومیاں ،بے روزگاری اور پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے کیاکردار ادا کیا ہے ۔بلوچستان کے لوگوں کو یہ یقین ضرور ہوگا کہ ان کے پاس ان سوالات کے جوابات نہیں ہیں مگرآج بھی وہ بلوچستا ن کے عوام کے لیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔اب ان محرومیوں کو ختم کرنے کے لیے سردار اور نواب سمیت سب کو کردار ادا کرنا چاہیے اور بلوچستان کی تعلیم ،صحت ، بنیادی ضروریات اور خاص طور پر نوجوانوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ اس صوبے کی محرومیوں ،بے روزگاری اور پسماندگی کو ختم کیا جاسکے۔