فلسطین کی سر زمین کا دنیا بھر کے مسلمان کے دل و دماغ ایک خاص مقام ہے۔ ہر مسلمان اس کے تقدس اور عقائد کے لحاظ کے لیے ہر قسم کی جانی و مالی، خاندانی ،حتیٰ کہ اہل و عیال کی قربانی دینے کا جذبہ رکھتا ہے۔ اس لیے کہ فلسطین کی زمین انبیاؑ کا مسکن ہے۔حضرت ابرھیم خلیل اللہ، حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کی ازواج المطاہرات فلسطین میں مدفون ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رات مسجد حرام خانہ کعبہ سے مسجد اقصیٰ کی سیرکرائی۔ اس کاثبوت قرآن اور حدیث میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے ! پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دُور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کواس نے برکت دی۔ تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کر وائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا(سورۃ بنی اسرائیل۔۱)۔ یہ معراج النبی ﷺ کا واقعہ ہے۔ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے۔ بیت المقدس کے بارے حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ کی باندی حضرت میمونہ فرماتی ہیں۔ میں نے کہا، یا رسول اللہ ﷺ ہمیں بیت المقدس کے بارے بتایئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا! یہ حشر اور نشر کی سرزمین ہے۔ یہاں آؤ اور اس سرزمین پر نماز پڑھو۔ یہاں پڑھی گئی ایک نماز کسی اور جگہ بڑھی گئی ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ حضرت میمونہ فرماتی ہیں، میں نے پوچھا ! اگر میں وہاں تک نہ پہنچ سکوں توآپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا تم وہاں چراغ جلانے کے لیے تیل بھیج دیا کرو جس نے ایسا کیا گویا وہ وہاں پہنچ گیا۔(امام احمد، ابودائود، اور ابن ماجہ) اس حدیث سے ثابت ہوتا کہ فلسطین کے مسلمانوں کی مدد کرنی فرض ہے۔ ایک اور حدیث ہے۔
حضرت ابوذر غفاریؓ فرماتے ہیں! میں نے کہا رسول اللہﷺ روئے زمین پر سب سے پہلی کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ نے فرمایا “مسجد حرام” میں نے کہا پھر کون سی؟ آپ نے فرمایا”مسجد اقصیٰ” میں نے پوچھا دونوں کے درمیانی مدت کتنی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا چالیس سال اس سے معلوم ہوتا کہ مسجد اقصیٰ تو پہلے سے موجود تھی۔ اور ہیکل سلیمانی علیحدہ جگہ حضرت سیلمان کے دور میں تعمیر ہوا۔ اب تاریخ بیت المقدس کے بارے میں تاریخ کو ٹٹولتے ہیں۔ تاریخ میں آیا ہے کہ3500قبل مسیح سیمائٹ قبائل کی عرب علاقوں سے فلسطین کے اِرد گرد کے علاقوں کی طرف نقل مکانی کی ایک لہر سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ان ہی قبائل سے ایک “قبیلہ کنعان” بھی تھا جو فلسطین کی سرزمین کی طرف منتقل ہوگیا اور وہاں 2500قبل مسیح کے قریب آباد ہو گیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فلسطین میں سب سے پہلے آباد ہوئے۔ یہ وجہ ہے کہ اس خطہ کو کنعان کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔ 1220قبل مسیح عبرانیوں نے فلسطین کو فتح کیااور جیریکو پر تسلط جمایا اور اس کو یروشلم یعنی “شہر امن” کانام دیا۔
ایک سو چالیس سال وہ اس علاقے پر قابض رہے۔ حضرت داؤد ؑکے زمانے میں بنی اسرائیل نے فلسطین کو فتح کرنے کے بعد چالیس سال اس پر حکومت کی۔ اس کے بعد حضرت سلیمان یہاں حکومت کی۔ اس زمانے میں ہیکل سلیمانی بنایا۔ اس زمانے کے بنی اسرائیل صحیح مسلمان تھے، ان پیغمبروں کی اللہ تعالیٰ سے لائے ہوئے احکامات پرعمل کرتے تھے۔ مگر بعد کے لوگوں نے اس احکامات اور ہدایات میں اپنی مرضی سے تحریفات اور رد بدل کر دیا۔ آج کے یہودی اللہ کی طرف سے بھیجی گئی تعلیمات پرعمل نہیں کر رہے۔ 922 قبل مسیح میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے پردہ فرمانے کے بعد ان کی سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ جنوب میں اُردن اور شمال میں اسرائیل۔ ان کی آپس کی لڑائیوں سے فائدہ اُٹھا کر721 آشوریوں نے ان علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ 580قبل مسیح اہل بابل نے یروشلم پر حملہ کیا اور اسے تباہ کر دیا۔ ہیکل سلیمانی کو نظر آتش کر دیا۔ یہاں کے باشندوں قیدی بنا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ یوں اُردن کی سلطنت کو ختم کر دیا۔
539قبل مسیح میں شہنشاہ فارس سائرس دوم نے فلسطین کو فتح کیا۔ یہودیوں کو واپس آنے اور ہیکل سلیمانی از سرے نو تعمیر کرنے کی اجازت دی۔ اس وقت صرف بیالیس ہزار یہودی واپس آئے اور اکثریت نے بیی لون میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ 332 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے فلسطین کو فتح کیا۔300قبل مسیح میں نبطیوں نے فلسطین پر تسلط جمایا۔ 63 قبل مسیح میں رومیوں نے فلسطین فتح کیا۔ اس دوران یہودیوں نے دو دفعہ بغاوت کی مگر رومیوں نے اسے کچل دیا۔ 614ء ایران کے بادشاہ خسرو دوم نے یروشلم کو فتح کیا۔ وہاں کے باشندوں کا قتل عام کیا۔ گرجا گھروں کو مسمار کر دیا۔ مسلمانوں نے عیسائی پر بت پرستوں کی فتح کا ناپسند کیا۔ 627ء میں رومیوں نے دوبارہ فلسطین پر تسلط جماع لیا۔ اس کے بعد 639ء میں مسلمانوں نے حضرت عمر کی خلافت کے دوران فلسطین کو فتح کیااور1917ء تک فلسطین پرحکومت کی۔ اس دوران دو دفعہ عیسائیوں نے مداخلت کرنے کو شش کی۔ فلسطین کے باشندوں نے اسلام کی تعلیمات کو بہتر جانتے ہوئے اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لیا۔ سابقہ مذہب پر قائم رہنے والوں کو بر ابر کے حقوق دیے، جو تاریخی طور پر ثابت ہیں۔حضرت عمرؓ خلیفہ دوم کی لکھی ہوئی دستاویز اب بھی ریکارڈ میں موجود ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ فلسطین عربوں کا وطن ہے جو بعد میں مسلمان ہو گئے۔ یہودیوں نے فلسطین پر “تاریخی حق” کا صیہونی نظریہ بعد میں ایجاد کیا۔ جس میں وہ کہتے ہیں مسجد اقصیٰ ہماری ہے۔ اس کے نیچے ہیکل سلیمانی ہے۔ ہم نے مسجد کو مسمار کرکے اس جگہ نئے سرے ہیکل سلمانی تعمیر کرنا ہے۔ صہیونیوں نے دیوار براق کو دیوار گریہ کہہ ڈالا اور اس کے پاس عبادت کرنے لگے۔ اس طرح وہ یورپ میں اپنے جراہم پر پردہ ڈالنا چاہتے تھے۔ گذشتہ دنوں، ہم ایک مضمون میں یہودیوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے یورپ سے نکالنے جانے کی ایک ہزار پانچ سو سال(1500) کی داستان بیان کر چکے ہیں۔ وگرنہ فلسطین پر یہودیوں کے اس قسم کے تاریخ حق کی کوئی بنیاد نہیں۔ دور حاضر کے صہیونیوں سے فلسطین سے کوئی تعلق اور مناسبت نہیں اور نہ ہی قدیم یہودیوں سے کوئی واسطہ ہے۔ 1099ء میں صلیبیوں نے فلسطین پر قبضہ کیا مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ مگر 1187ء میں صلاح الدین ؒایوبی نے ان کو شکست فاش دی۔
فلسطین کے باشندوں سے صلح رحمی کی۔ جب جنگ عظیم میں شکست کے بعد1923ء میں تین براعظموں پر پھیلی خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کیے گئے توفلسطین برطانیہ کے حصہ میں آیا۔اعلان بلفور کے تحت برطانیہ نے 1917ء میں صہیونیوں کو فلسطین میں ریاست قائم کرنے کاوعدہ کیا، جس کی توثیق1922ء میں عیسائیوں کی لیگ آف نیشن نے کی۔ ساری دنیا سے یہودی فلسطین میں تشویشناک حد تک آباد ہونا شروع ہوئے۔ یہودیوں نے دہشت گردی سے مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کیا۔ ان ظلمانہ حرکات پر مسلمانوں میں “البراق الانتفاضہ” نے زور پکڑا۔ اس کو برطانوی حکومت نے روکنے کے لیے ظلم و تشدد کا حربہ استعمال کیا۔ جب فلسطینی مسلمان قابو نہیں آئے تو برطانیہ کے کولونیل سیکرٹری نے شاہ کمیشن کے نام سے 1929ء ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اس کے بعد برطانوی حکومت کی تجویز پرcouncil of the leage of nation نے1930ء منظوری دی۔ ایک اعلیٰ پایہ کی بینا لاقوامی غیر جانبدار ثالثی کیمٹی تشکیل دی گئی۔ جس نے مسجد اقصیٰ اور دیوار براق کو مسلمانوں کی ملکیت تسلیم کیا اور یہودیوں کو اس سے الگ کر دیا۔
برطانیہ اور امریکہ نے مسلمانوں کے وطن فلسطین کو تقسیم کیا۔ مسلمانوں کی 70 فی صدی آبادی اور92 ملکیت کو صرف 47 دیا۔ صہیونیوں کو جن کی آبادی30 فی صد اور صرف8 فی صد رقبہ پر قابض تھے کو 53 رقبہ کا مالک بن دیا۔ اس کے بعد فلسطنیوں کے علاقے خالی کر کے یہودی دہشت گردوں کوبسا دیا۔ اس دوران میں بے گناہ اور معصوم فلسطینیوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام کیا گیا۔ دیریا سین اور ابن الزیتون کے علاقوں بلخصوص اور فلسطین کے دوسرے دیہاتی علاقوں میں بالعموم صہیونیوں نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی اور تاریخ انسانی کا شرمناک ظلم وجبر روا رکھا کہ جس کے بیان کرنے کے لیے ابھی تک لغت میں الفاظ بھی موجود نہیں۔ لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا۔ فلسطینیوں کو فلسطین سے طاقت کے زور پر نکال کر گریٹر اسرائیل بنانے کے لیے ظلم و ستم کی چکی چلائی ہوئی ہے۔ اب تازہ جنگ میں بمباری اور میزائل حملوں سے غزہ کی اسّی فی صد عمارتیں زمیں بوس کر دیں ہیں۔ پچاس ہزار فلسطینیوں کو ہلاک یا زخمی کیا۔ اس غالب تعداد معصوم بچوں اور عورتوں کی ہے۔ فلسطینیوں کی اس نسل کشی پر دنیا کے انصاف پسند عوام اسرائیل کے خلاف ہو گئے ہیں۔
قرآن و حدیث اور اوپر بیان کردہ تاریخ کے مطابق فلسطین کبھی بھی صہیونیوں کا وطن نہیں رہا ہے۔ فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔ صیہونی باہر سے آکر مالک بن بیٹھے ہیں۔ صیہونی مسجد اقصیٰ اور دیوار براق جو مسلمانوں کی ہیں۔ جسے جعل سازی سے صہیونیوں نے ہیکل سلیمانی اور دیوار گریہ کہنا شروع کر دیا ہے۔ جو سرا سر غلط اور دھوکا بازی ہے۔