پاکستان کی تاریخ بہت تلخ ہے، پاکستان کی تاریخ میں پریشانیاں زیادہ اور خوشی بہت کم ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جو وژن دیا گیا اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ تاریخ تو بہت کچھ بتاتی ہے مگر آج ہم پاکستان میں جتنے انتخابات ہوئے ہیں ان کو تاریخ کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پاکستان کی آزادی کے بعد سب سے پہلے جب عام انتخابات کا اعلان کرنے والے وزیراعظم لیاقت علی کو 1951ء میں شہید کردیا گیا۔
لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ملک میں بےچینی کا ماحول تھا۔ سیاسی عدم استحکام عروج پر تھا۔ وہ انتخابات پھر صدارتی انتخابات کے طور پر 1965ء میں آمر ایوب خان کے اپنے آمرانہ آئین کے تحت ہوئےجس کے لیےشفافیت کا لفظ استعمال کرنا توہین ہوگی۔ جنرل یحییٰ کے تحت پاکستان میں عام انتخابات 1970ء میں جب ہوئے تو اس میں بھی شفافیت کا ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا مگر اس میں شفافیت بالکل نہیں تھی ۔ اس بارے بعض مورخ لکھتے ہیں کہ غلام عمر جو اسد عمر ( جو پی ٹی آئی میں تھے) اور محمد زبیر (جو مسلم لیگ ن میں ہے ) کے والد ہیں، وہ اس وقت صدر یحیٰ کے قومی سیکورٹی معاون تھے ،کے زریعے پیسہ چلایا اور شیخ مجیب الرحمان کو ہرانے کی بھر پور کوشش کی، مغربی پاکستان اور صوبوں کے انتخابات میں خوب دھاندلی ہوئی جس کے نتیجے میں پھر وہ ہوا جس کا دکھ آج بھی عام پاکستانیوں کو ہے۔ اس کے بعد 1977ء میں عام انتخابات ہوئے جس میں ذوالفقار علی بھٹو کو بڑی اکثریت ملی اور اس وقت کے اپوزیشن جو پاکستان قومی اتحاد کے نام سے تمام سیاسی جماعتوں کا پیپلز پارٹی کے خلاف اتحاد تھا ،نے دھاندلی کا الزام لگا کر انتخابی نتائج کو مسترد کردیا تھا۔ اسے جھرلو کا نام دیا گیا۔
اس کے بعد مارشل لا لگا جو 11 سال تک جاری تھا۔ اس کے بعد بینظیر اور نواز کی باریاٰں باریاں لگیں ۔اقتدار میں آنے والے انتخابات کو اس وجہ سے صاف اور شفاف نہیں کہہ سکتے ہیں کہ وہ انتخابات فارمولے اور جانب دار نگراں حکومت کی نگرانی میں ہوتے تھے ۔1999ء کو پھر پاکستان کو مارشل لا کا سامنا کرنا پڑا جو 9 سال تک جاری تھا اور اس کے بعد 2008ء میں انتخابات ہوئے جن میں پیپلز پارٹی کو کامیبابی ملی۔ اس کے بارے بھی تاریخ بتاتی ہے کہ مشرف اس وجہ سے پیپلز پارٹی کو اقتدار میں لانا چاہتے تھے کہ وہ اپنی صدارت کو بچا سکے اور ان کی اپنی پارٹی مسلم لیگ ق جس کا سربراہ شجاعت حسین ہیں ۔ چودھری شجاعت حسین نے اپنی کتاب “سچ تو یہ ہے” میں لکھا ہے کہ 2008 ء کے عام انتخابات بالکل صاف اور شفاف نہیں تھے۔ 2013 ء کے انتخابات میں دور دور تک شفافیت نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن نتائج کے دوران دو تہائی اکثریت کے دعوے کرتی تھی اور جب 2015 ء میں سپریم کورٹ نے چار سیٹوں پر دوبارہ الیکشن کرانے کو حکم دیا اور وہ حکم اسی بنیاد پر دیا تھا کہ 2013 ء الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی ۔ 2018 ء کے انتخابات میں کھلے عام دھاندلی ہوئی تھی،اس کی وجہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ آر ٹی ایس کو بٹھایا گیا اور مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف جیل میں تھے، تو اس پر بعد میں بہت سے سوالات اٹھے گیے تھے کہ ایک شخص کو اس وجہ سے باہر رکھا گیا تھاکہ وہ انتخابات میں حصہ نہ لیں اور مخالف کو کھلا میدان ملے۔ نواز شریف مقبول تھے یا نہیں مگر انتخابات میں حصہ لینے کا حق رکھتا تھا۔ آج پھر انتخابات کا ماحول ہے ۔
آج کل کے ماحول میں کہا جارہا ہے کہ الیکشن کمیشن کو پھر استعمال کیا جارہا ہے ۔ یہ ادارہ ہمیشہ طاقت ور لوگوں کے زیر اثر رہا ہے ۔ جو لوگ اس ملک میں صاف اور شفاف انتخابات نہیں ہونے دے رہے ہیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ ملک کے ساتھ مخلص ہیں ۔ ذرائع کے مطابق 8فروری کو انتخابات نہیں بلکہ اعلان ہوگا ۔اس ملک کو مسائل سے نکالنے کا واحد حل یہ ہے کہ قانون کے مطابق اس ملک کو چلنے دیا جائے اورنہ ایک دن سب پچھتائیں گے ۔