اموی خلیفہ عبدالملک کے دور میںموسیٰ بن نصیر افریقہ کا گورنر تھا، اس کے بر بر، قبیلہ کے کمانڈر طارق بن زیاد نے711 ء میں اندلس فتح کیا تھا۔ اس دور میں عیسائی شہنشاہ رڈارک اُندلس کا بادشاہ تھا۔ اُس کی رعایا نے افریقہ کے اموی گورنر موسیٰ بن نصیر سے مظالم کا ذکر کے اس سے جان چھڑانے کی درخواست کی۔ طارق بن زیاد نے جب سمندر پار کیا اور اُندلس کی زمین پر پہنچا تو اپنی کشتیاں جلا ڈلیں تھیں ۔ ایک پہاڑی کے دامن میں رکا تھا ۔اس پہاڑی کا نام جبل الطارق پڑھ کیا۔اپنی فوج کو جہاد پر اُبھارا۔ طارق کی سات ہزار فوج نے رڈراک کی ایک لاکھ فوج کو شکست فاش دی تھی۔ اسی شکست پر یورپ نے’’ بربریت‘‘ کا لفظ ایجاد کیا۔ مسلمان بھی ناسمجھی میں اسے استعمال کرتے ہیں ۔مسلمانوں کو بربریت کی بجائے’’ سفاکیت ‘‘کا لفظ استعمال کرنا چاہیے۔ موسیٰ بن نصیر خود بھی فوج کے ساتھ اندلس آیا اور کئی علاقے فتح کیے تھے۔ عباسیوں نے اقتدار میں آکر جب امویوں کا قتل عام کرنا شروع کیا،تو ایک سرخ بالوں والا اموی شہزادہ عبدلرحمان الداخل بھاگ کر مصر سے ہوتا ہوا افریقہ چلا گیا۔ عبدالرحمان الداخل کی ماں بربر تھی۔ اس لیے اندلس کے بربروں نے اس کی مدد کی۔ اُس نے اندلس میں داخل ہو کر اپنی حکومت قائم کر لی۔ اس طرح اندلس کی اموی حکومت کے پہلے خلیفہ عبدالرحمان الداخل 756ء سے، آخری خلیفہ ہشام دوم تک 1009ء تک، اڑھائی سو سال( 253) سے زیادہ قائم رہی۔اس کے بعد مرابطین حکمرانوں کی حکومت، یوسف بن تشفین1061ء سے، تاشفین بن علی 1147ء تک چھیاسی سال(86) رہی۔ اس کے بعدخلافت موحدین کی حکومت عبدالمومن 1130ء سے یوسف مستنصر 1224ء تک، ترانویں سال(93) تک چلتی رہی۔ غرناطہ کی حکومت دو سال(200) سال تک قائم رہی اور عیسائیوں کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔مجموعی طور پر مسلمان اندلس پر711ء تا1492 ء تک781 سال یعنی ، آٹھ سوسال تک حکمران رہے۔ اسی پر شاعر اسلام ،حضرت شیخ علامہ محمد اقبال ؒنے دنیا کے سامنے حقیقت بیان کرتے ہوئے اپنے شعر میں کہا تھا کہ اگر یہودی فلسطین پر ہزار سالہ دور کو پیش کرکے اپنا حق جتاتے ہیں ۔ تو عرب مسلم بھی آٹھ سو سال اندلس پر حکومت کر چکے ہیں۔ اس لیے اندلس پر پھر مسلمانوں کا حق بھی تسلیم کیا جائے۔
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق کیوں نہیں اہل عرب کا
عبدالرحمان نے 33 سال حکومت کی۔ اس نے جامع مسجدقرطبہ کی بنیاد رکھی۔ کئی محل ، سرائیں، مدرسے اور مساجدبنوائیں۔ اس بعد اس کے بیٹے ہشام اوّل نے آٹھ سال حکومت کی۔ محلات اور باغات تعمیر کروائے۔ جتنا اِس کے دور میں عوام کو انصاف نصیب ہوا ، اتنا کبھی بھی نہیں ہوا تھا۔ ہشام نے مسجد قرطبہ مکمل کرائی۔ دریائے کبیر پر پختہ پل تعمیر کرایا۔ ہشام کا جانشین حکم بنا۔ اس کے بعد سات حکمران باری باری بنتے رہے۔خاندان مراطبین اور خلافت موحدین اور آخر میں غرناطہ کی حکومت 1492ء تک قائم رہی۔جب عیسائی اندلس پر قابض ہوئے تو انہوں نے اُندلس سے مسلمانوں کا نام نشان تک مٹا دیا۔ لوگوں کو ذبردستی عیسائی بنایا۔کچھ بھاگ کر چلے گئے۔اندلس میں کسی ایک مسلمان کو بھی نہیں چھوڑا۔
تاریخِ اندلس کے کسی دور کو اگر عہد زرّین کہیں تو وہ مسلمانوں کا دور ہے۔ جہاں کے علمائے دین میں ابن حزم، ابن عبدلبر اور ابن عربی، فلسفیوں میں ابن طفیل ابن رشد، طبیبوں میں زیر اوی اور ابن زہر، ادیبوں اور مورخوں میں ابن عبدربہ اور خطیبوں اور شاعری میں ابن زیدون اور ابن عمار دنیا کے عظیم انسان تھے۔ عباس بن فرناس نے ہوائی جہاز تک اُڑایا تھا۔ وقت معلوم کرنے کا ایک آلہ بھی تیار کیا تھا۔ موحدین کے زمانے میں ایک ماہر زراعت نے قلمیں لگانے اور زراعت کے بہتر طریقے اپنی کتاب میں لکھے۔پہلی بار چاول،زعفران، نارنگی، لیموں، انگور، خربوزہ کیلے، زرد گلاب اور گنے کی کاشت شروع ہوئی، جو پہلے اندلس اور یورپ میں نہیں تھی۔ جیسے آج یورپ ترقی یافتہ ہے۔ اس وقت مسلم اندلس ان سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ اس وقت یورپ والے جاہل تھے، مفلس اور غریب تھے۔ جس طرح آ ج مسلمان تعلیم حاصل کرنے یورپ جاتے ہیں اس وقت انگریز عیسائی عربی زبان اور تعلیم حاصل کرنے اندلس آتے تھے۔ پیرس اور لندن میں لکڑی اور بانس کے گھر بناتے، جن کو مٹی اور بھوسے سے لیپ دیتے۔ لوگ بستر سے ناواقف تھے۔ بوسا اور پیال بستر کا کام دیتا تھا۔ جانوروں کی اوجڑی، آنتین اور کوڑا کر کٹ گھروں کے سامنے ڈال دیتے۔اس زمانے میں چند پادریوں کے علاوہ عام لوگ ان پڑھ تھے۔ جبکہ اندلس کا ہر شہری پڑھا لکھا تھا۔
فرانس کے بادشاہ کے کتب خانے میں صرف چھ سات سو کتابیں تھیں۔جب کہ قرطبہ کے ہر شہری کے گھر ہزاروں کتابیں ہوتیں تھیں۔ اندلس کے شاہی کتب خانے میں چار لاکھ کتابیں تھیں۔اس زمانے میں سوائے چین اور مسلمانوں کے علاوہ کہیں بھی کاغذ بنانے کے کارخانے نہیں تھے۔بعد میں فرانس ،جرمنی اور انگلستان میں کاغذ بننا شروع ہوا۔یورپ نے تعلیم عربوں سے حاصل کی۔ علم کو عربی سے لاطینی پھر انگلش میں ترجمہ کرنا شروع کیا۔ علم حاصل کرنے والوں میں پاپائے روم نے اندلس میں تعلیم حاصل کی، بعد میں کتابیں لکھیں۔عربوں کے ایک طب کے مدرسے کو ترقی دے کر یورپ کی پہلی یونیورسٹی بنائی گئی۔اندلس میں یورپ کے اہل علم آکر اپنی زبان لاطینی میں عربی کتابوں کے ترجمے کرتے تھے۔ابن رشد اورابن سینا کی کتابوں کو تین سو سال تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا تھا۔
یورپ میں اس زمانے میں مسلمانوں کی کوئی ریاضی، علم ہیئت، کیمیا، طب یاسائنس کی کوئی کتاب پڑھائی ،جاتی تو جاہل یورپی لوگ اسے جادوگری قرار دیتے۔1511ء میں ہسپانیہ کی عیسائی حکومت نے عربی کتابوں کو جلا دینے کا حکم جاری کیا۔ لاکھوں کتابیں جلا دی گئیں۔ صرف غرناطہ میں اسی ہزار کتابیںکتابیں جلائی گئیں۔ کچھ بچیں جو اب بھی کوریال کتب خانے میں موجود ہیں۔ علم فن کے علاوہ اُندلسی مسلمانوں نے زراعت صنعت کر بھی خوب ترقی دی تھی۔ چاول اور گنا پہلی دفعہ اندلس میں مسلمانوں نے اُگایا۔ جہاں سے یہ رواج یورپ تک پہنچا۔نہروں کا نظام بھی فرانسیوں نے اندلس کے مسلمانوں سے سیکھا۔ اندلس کے لیلین نامی کپڑے نے بڑی شہرت پائی تھی۔قرطبہ کا ریشم دور دور تک مشہور ہو گیا تھا۔ اندلس میں تیار ہونے والا چمڑے کا سامان، ہتھیاروں اور شیشہ اور مشجر کپڑوں کا یورپ میں کوئی مقابلہ نہ تھا۔ اس طرح یورپ کی سرزمین میں جو علمی اور سائنسی لحاظ سے بنجر تھی سیکڑوں عربی کتبوں کے ترجمے ہوگئے اور جس طرح بارش سے بنجر زمین شاداب اور زرخیز بن جاتی ہے وہی اثر ان ترجموں کا یورپ پر ہوا۔ یورپ کے ملکوں میں عربوں کے سونے کے درم دینار کے سکوں کا روائج تھا، جیسے اب مسلم ملکوں میں امریکی ڈالر رائج ہے۔ اب اگر کوئی اندلس کو یورپ کا اُستاد کہے تو آپ ہی خود بتائیں یہ صحیح ہو گا کہ نہیں؟۔ یہ ہے مختصر تاریخ یورپ میں علم و فن، سائنس و حکمت کی روشنی پھیلنے کی۔ اگرچہ یورپ کو مہذب بنانے کا فخر، پوری اسلامی دنیا کو حاصل ہے مگر مسلم اندلس چونکہ یورپ سے سب سے زیادہ قریب تر ہے اس لیے یورپ والوں نے سب سئے زیادہ فائدہ بھی مسلم اندلس سے اُٹھایا۔ اس لیے اندلس کے مسلمان بجا طور پر یورپ کے استاد کیے جانے کے مستحق ہیں۔