ہر کسی کا امتحانی پرچہ مختلف ہوتا ہے_وقت و حالات کے حساب سے اس کی نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے_کسی انسان کے دوسرے فرد سے تعلق کی کیفیت بھی مختلف ہوتی ہے_جذبات و احساسات بھی قطعا یکساں نہیں ہوتے_
ایک انسان تیز مرچ کھالے تو سوں سوں کی آواز نہیں نکالتا جبکہ دوسرے فرد کے لئے ایک ہری مرچ چبانا بھی انتہائی مشکل کام ہے_کوئی فرد چند قدم چل کر تھک جاتا ہے تو دوسرے فرد پر کئی کلو میٹر کا چلنا بھی تھکن کے آثار تک نہی لاتا_
اسی طرح انسان کے جذبات و احساسات کا بھی تعلق ہے_کوئی انسان اپنے کھوئے ہوئے لاکھوں روپے کے ملنے پر بھی اتنا خوش نہیں ہوتا جتنا کہ دوسرا فرد اپنے غائب ہوئے چند روپوں کے ملنے پر فرحان ہوجاتا ہے_اور اس کا تعلق امیری و غریبی سے بھی نہیں ہوتا_
کسی انسان کے لیے اپنوں کی شادی میں شرکت بلکل معمولی سی بات ہوتی ہے جبکہ دوسرے فرد کے لئے یہی سب سے بڑی خوشی ہوتی ہے_اور اس کا تعلق شاید سہولیات کی دستیابی،محل وقوع، وقت و حالات کے رد و بدل، سفری سہولیات کی موجودگی سے بھی ہوتا پے۔ ایک عورت اپنے بھائی، بہن ، بھتیجے، بھانجے یا اسی طرح کے کسی قریبی رشتہ دار کی خوشی کی تقریب جیسے عقیقہ،شادی بیاہ وغیرہ میں شرکت کرکے اتنا خوش نہیں ہوتی جتنا کہ دوسری عورت جو اس طرح کی تقریب میں شرکت نہ کرنے پر افسردہ ہوتی ہے۔ اسے اس وقت اپنی زندگی میں سب سے بڑی کمی اسی کی محسوس ہوتی ہے، کہ وہ ان پیارے لمحوں میں اپنوں سے دور ہے۔
ان لمحات میں اس کی مزید دوسرے رشتوں کی محبتیں اس کے پاؤں کی زنجیر بن جاتے ہیں یا وہ ان کہی باتیں تو ڈر و خوف بھی اس کی موجودگی کو ناممکن بنا دیتے ہیں اور اس وقت وہ عورت صرف خود ہی جانتی ہے کہ اس پر کیا گزر رہی ہے! وہ اس وقت اپنوں کو بھی سمجھانے سے قاصر نظر آتی ہے کہ وہ اپنوں کے ساتھ ہی ہے_وہ عورت اپنے اندر ایک جنگ لڑ رہی ہوتی ہے_کبھی اپنے آپ کو طاقتور بنانے کے لئے کہتی ہے کہ کسی فرد کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئ فرق نہیں پڑتا پھر اگلے ہی لمحہ وہ بتانے کی کوشش کرتی ہے کہ میں جانتی ہوں کہ میں تم لوگوں کے لئے” اہم” ہوں اور” سب کچھ”ہوں تو ساتھ ہی” تم سب میرے لیے بہت ہی اہمیت کے حامل ہو”۔ وہ اس بات کو کہنے سے بھی قاصر ہوتی ہے کاش کوئی ان محبتوں کو ناپنے کا آلہ بنا لے اور میں تم سب کو بتا سکوں کہ کتنی محبت ہے مجھے تم سب سے، لیکن اسے محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان سب کے لیے یہ لفاظی نہ ہو لہذا وہ کہنے سے گریز کرتی ہے، پھر کبھی وہ اپنے آپ آپ کو کہتی ہے کہ آنکھوں سے نکلنے والے قطروں کو اپنوں کے سامنے گرنے نہیں دینا لیکن یہ اس کے اختیار سے باہر ہوتا ہے پھر کبھی وہ اپنے آپ سے کہتی ہے کہ کوئی گلہ نہیں کرنا اپنوں سے لیکن اس پر بھی بے بس ہوجاتی ہے اور پھر اسے ہوتا ہے کہ گلہ کیوں کیا؟
لیکن شاید گلہ بھی اپنوں سے ہی کیا جاتا ہے جب گلہ شکوہ ہوتے ہوئے بھی نہ کیا جائے تو شاید رشتے بھی فارمیلیٹی کی حد تک ہی رہ جاتے ہیں اور پھر جب یہی گلے شکوے اس کے اپنے کرتے ہیں تو وہ اس کی سمجھ سے باہر ہو جاتے ہیں_وہاں بھی کوئی آلہ ان کے پاس بھی نہیں ہوتا کہ وہ اسے سمجھا سکیں کہ تم ہی “اہم “ہو_
اور پھر وقت گزرنے کےساتھ ہی ان جذبات و دل کی کیفیات بدلتی رہتی ہیں_ حالات بھی بدل جاتے ہیں اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں بیک وقت ہر کچھ ملنا ناممکن ہے اور یہ حقیقت سمجھ آجاتی ہے کہ “ہر انسان کے امتحانی پرچے الگ الگ ہوتے ہیں”_