فوجی عدالت ہو یا عوامی عدالت، عوام کا مسئلہ انصاف سے ہے۔ عدالت کوئی بھی ہو، عوام ہمیشہ چاہتی ہے کہ عدالتی فیصلے درست ہوں، تاہم توجہ طلب امر یہ ہے کہ سیاست دان ہر عوامی مسئلے کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے باوجود عوام کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ ایک عام انسان کو نہ ہی انصاف جلدی ملتا ہے اور نہ ہی آدھی رات کو عدالت لگائی جاتی ہے۔ عام انسان کو انصاف کے حصول کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں اور اپنی ساری جمع پونجی انصاف کے حصول کیلئے لٹانی پڑ جاتی ہے۔
آج تمام ٹی وی چینلز پر سیاست دان فوجی عدالتوں کے بارے میں بحث و تمحیص میں مصروف ہیں اور آج ہی کے دن لاکھوں لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ اپنا کیس عدالت میں لے جا کر انصاف حاصل کیا جائے اور ان کے ساتھ جو ناانصافی ہوئی ہے ، اس کا ازالہ ہو۔ اگر نظام بدل جائے اور عام آدمی کو آسانی سے انصاف ملے تو یہی معاشرہ آپ کوبہتری کی جانب گامزن نظر آئے گا۔
ہمارے ہاں مسائل کا حقیقی حل تلاش کرنے کے بجائے اداروں پر ادارے قائم کردئیے جاتے ہیں، مگر معاشرے کو بہتر بنانے کیلئے پرانے اداروں کو بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ جتنے نئے ادارے قائم ہوں گے، حکومتی اخراجات میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے اور ایسے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے ہمیشہ ٹیکس کا بوجھ بڑھا دیا جاتا ہے جو عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔
مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ بدعنوانی کو روکنے کیلئے بہت سے ادارے بن چکے ہیں جن میں صرف ایف آئی اے ہی نہیں بلکہ اینٹی کرپشن اور نیب جیسے ادارے شامل ہیں جو ایک جیسا کام کرتے ہیں مگر اداروں کے نام اور اختیارات تقسیم کردئیے جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر مختلف دیگر اداروں کی مثال دی جائے تو وہ بھی اسی طرح اپنا کام جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ آج پاکستان کی ضرورت یہ ہے کہ ہم غیر سیاسی طور پر حکومتی اداروں میں کام کریں۔آج کل ہمارے تمام ادارے کاروباری طرز سے چلائے جانے چاہئیں جو کہ میرٹ پر چلیں اور جو ادارے اور عوام کے مفاد میں ہوں، وہ کام کیے جائیں۔
ملک دشمن عناصر پاکستان کو تباہ کرنے کیلئے جس طریقے کو سب سے آسان سمجھتے ہیں وہ عوام کو یا مذہبی طور پر جذباتی کرکے آپس میں لڑانا ہے یا پھر کاروباری طور پر ایسے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں کہ کاروبار میں تباہی و بربادی ہو جس کی مثال کچھ عرصہ قبل دیکھنے میں آئی ، جب ڈالر کی قیمتوں کو مزید بڑھایا جارہا تھا اور ہر ٹی وی چینل پر اور میڈیا میں کہا جارہا تھا کہ معیشت تباہ ہوچکی ہے اور اب ڈالر کی اڑان کو کوئی نہیں روک سکتا۔ مگر آخر کار اس اڑان کو روکنے کیلئے بھی ہمیں فوج کا سہارا لینا پڑا، جس نے ان ملک دشمن منافع خوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جس کی وجہ سے ڈالر کی اڑان کو لگام دینا ممکن بنایا گیا۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہر وہ کام جو 70سالوں سے نہیں ہورہا تھا، 3ماہ کے اندر اداروں نے کس طرح سے ممکن بنایا؟ سب سے بڑا کام جس کی کسی سیاست دان نے ہمت نہیں کی اور جس کی وجہ سے پاکستان کئی سالوں سے مہنگائی کا شکار رہا، اور معیشت تباہ ہوتی رہی، وہ کام افغانستان سے اسمگلنگ کو روکناتھا۔ افغانستان بھارت سے ہر وہ کاروبار کرتا رہا جس سے بھارت کو ترقی حاصل ہوئی تاہم پاکستان سے زیادہ تر کاروبار اسمگلنگ کے ذریعےہوا اور یہی وہ وجہ تھی کہ پاکستان کے اندر تمام اشیاءمہنگی ہوجاتی تھیں اور حکومت کی منصوبہ بندی بھی مہنگائی اور معیشت کی تباہی کو روکنے میں ناکام ثابت ہوتی تھی۔
آج 3ماہ کے اندر اداروں نے افغانستان سے ہونے والی اسمگلنگ ہی نہیں روکی بلکہ ان غیر قانونی مقیم افغان تارکینِ وطن کو واپس بھیجنے کا انتظام بھی کیا جو پاکستان میں رہ کر ہمارے وطن کو اور پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ گزشتہ 3 ماہ سے قائم نگران حکومت نےدیکھا کہ مذہبی پراپیگنڈہ، غیر قانونی کاروباری طریقوں سے جن کو قانونی دکھایا گیا، اور وہ لوگ جنہوں نے پاکستان اور پاکستان کے اداروں کے خلاف پراپیگنڈہ کیا، اصل میں وہی سب پاکستان اور پاکستانیوں کے دشمن تھے۔
آج آرمی چیف نے کاروباری لوگوں سے اور مذہبی طبقے سے ایک ہی بات کی کہ ہمارا مذہب یہی کہتا ہے کہ انسانیت کا ادراک کریں اور انسانیت کیلئے کام کریں۔ مذہب کو اور اپنی دولت کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی بجائے انسانیت کے مفادات کیلئے کام کرنا ہوگا۔
آئندہ آنے والے وقتوں میں اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ ملک کی ہر عدالت عوام تک باآسانی انصاف بہم پہنچائے۔ ضروری یہ بھی ہے کہ مذہبی رہنما، علما اور قائدین اللہ اور اس کے احکامات کو انسانیت اور اللہ کی مخلوق کی بہتری کیلئے دین کی باتوں کو لوگوں میں فساد پھیلانے کیلئے استعمال نہ کریں۔
کاروباری حضرات اپنے کاروبار پر دھیان دیں اور سیاسی لوگوں کو اپنے اثر ورسوخ سے یا اپنے پیسے کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے زیرِ اثر لانے کی کوشش نہ کریں۔ اس سے کرپشن کا خاتمہ اور دیگر معاملات کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔
حکومت کو چاہئے کہ چین کی طرح زیادہ سے زیادہ سرکاری اداروں کوقائم کرے جو کم سے کم منافعے کے ساتھ عوام اور ملکی مفا د کیلئے کام کریں۔ جتنے حکومتی ادارے بڑھیں گے، عوام کو اتنا ہی فائدہ ہوگا۔ حکومتی ادارے لوگوں کو نوکریاں فراہم کریں گے اور ساتھ ہی نجی سیکٹر کیلئے ایک مقابلہ جاتی ماحول پیدا کریں گے جس سے منافع خورعناصر عوام سے غیر مناسب طور پر منافع حاصل نہیں کرسکیں گے۔
آج پاکستان کے 90فیصد نجی ادارے پاکستان کو چلاتے ہیں اور اپنی من مانی قیمتوں کی وجہ سے پاکستان کو اس جگہ پر لاکھڑا کیا جہاں مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ بجلی کا محکمہ ہو یا ٹرانسپورٹ، ہر محکمے میں 70 فیصد بیرونی ممالک کے لوگ شامل ہوچکے ہیں جو کروڑوں اربوں ڈالر پاکستانیوں سے کما کر ملک سے باہر زرِ مبادلہ کے طور پر بھیج رہے ہیں۔
آج اگر ہم نے معاملات کی درستی پر غور نہیں کیا تو مہنگائی کا یہ طوفان نہیں تھمے گا۔ پرائیویٹ سیکٹر امیر سے امیر تر ہوتا ہوا نظر آئے گا اور غریب، غربت کے اندھیروں میں مزید ڈوبتا چلا جائے گا۔ یہ بات اگر ہم درست سمجھتے ہیں تو ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ اس کیلئے آواز اٹھائیں چاہے وہ سوشل میڈیا ہو یا سیاسی اکھاڑہ ، اب بات صرف عوام کے مفاد میں ہونی چاہئے۔ بصورتِ دیگر 70سالوں کی طرح تمام سیاسی جماعتوں کے منشور الیکشن سے قبل شروع ہو کر الیکشن کے نتائج پر ختم ہو جائیں گے، اور عوام صرف اور صرف آنسو بہاتے نظر آئیں گے۔
اب عوام کو سیاست دانوں سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ آپ اپنی سیاسی جماعت کے منشور میں جو کچھ درج کررہے ہیں، اس کو عملی جامہ پہنانے کا طریقہ بتائیں۔ ورنہ آپ حکومت میں آنے کے بعد یہی کہیں گے کہ ہم مجبور ہیں اور ہمیں گزشتہ حکومتوں کی وجہ سے یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے۔
ہمیں ” مجبور“ سیاست دانوں کو ووٹ نہیں دینا چاہئے بلکہ ان سیاست دانوں کو ووٹ دیں جو موجودہ حالات کے اندر بھی معاملات کو بہتر کرنے کیلئے طریقے بتائیں اور الیکشن میں جیتنے کے بعد ان طریقوں کو استعمال کرکے عوام کیلئے خوشحالی پیدا کریں۔
اب آپ کو سوچنا ہوگا کہ آپ نے اپنے بچوں کا مستقبل بہتر کرنا ہے، تعلیمی ادارے، بجلی، پانی، گیس اور دیگر استعمال کی چیزوں کو سستا کرنا ہے تو سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔