شاہد! خبر دار جو ایک لفظ بھی اور کہاتم نے، یہ تو ابھی میں نے ایک تھپڑ تمہیں مارا ہے آئندہ زبان کھینچ لوں گا۔
تینوں بچے سہمے ایک کونے میں کھڑے تھے ان کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ اگے بڑھ کر ماں کے آنسو پہونچتے، ویسے تو اب یہ روز کا معمول بن چکا تھا وہ بات بات پر نہ صرف بیوی سے لڑتا بلکہ پٹائی بھی کر دیتا۔
سکینہ شاہد کی چچازاد تھی وہ اپنے ماں باپ اور بھائی کی لاڈلی تھی جب شاہد کا سکینہ کے لیے شادی کا پیغام آیا تو سکینہ کی اماں نے شوہر کو بہت سمجھایا کہ شاہد لااُبالی لڑکا ہے اسکی ماں بہنیں بھی تیز مزاج کی ہیں جبکہ ہماری سکینہ پڑھی لکھی ٹھنڈے مزاج کی بچی ہے وہ ان سب کا مقابلہ نہیں کر سکتی، لیکن شوہر نے یہ کہہ کر چپ کروادیا سب مرد ایسے ہی ہوتے ہیں شادی کے بعد صحیح ہو جاتے ہیں پھر باہر رشتہ کرنے سے یہ زمیں جائیداد سب باہر چلی جائے گی اور اسکی بہنیں سب شادی ہوکراپنے اپنے گھروں کی ہو جائینگی۔
ہونی کو کون روک سکتا ہے لہٰذا سکینہ کی شادی شاہد سے ہوگئی کچھ عرصہ تو شاید کا رویہ بیوی کے ساتھ صحیح رہا لیکن پھر وہ اپنی اصلی ڈگر پر آگیا، ماں جب تک زندہ تھی وہ سکینہ کے لئے ٹھنڈی چھاؤں تھی تسلی دیتی رہتی کہ آہستہ آہستہ سب صحیح ہو جائے گااماں کے انتقال کے بعد اسکی زندگی میں مزید اداسی چھا گئی۔
شاہد ! تم اس گھر میں اسی صورت میں رہ سکتی ہو یہ میری شرط ہے اپنے ابا سے کہو کہ اپنے بیٹے سہیل کے لئے میری بہن نازنین کی شادی کا پیغام بھیجیں، سہیل ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھے عہدے پر فائز شریف النفس انسان تھا، مجبورا اس نے اپنی بہن کا گھر بچانے کے لئے قربانی دی اور نازنین کے ساتھ شادی پر راضی ہوگیا، ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ شاہد اس احسان کو مانتا اور اپنا رویہ بیوی بچوں کے ساتھ بدل دیتا لیکن اس میں کچھ زیادہ فرق نہ آیا سکینہ نے بھی اپنی قسمت پر صبر کرلیا تھا وہ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے لگی۔ اور پوری کوشش کرتی کہ شوہر کو کسی قسم کی شکایت کا موقع نہ دے لیکن شاہد کسی نہ کسی بہانے سے روز اسکی بے عزتی کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا شوہر کے دیئے ہوئے زخمیوں نے اسے اندر سے بالکل کھوکھلا کردیا تھا وہ اندر سے بالکل ٹوٹ چکی تھی لہٰذا اپنے بچوں کی تعلیم سے فارغ ہوتے ہی انکی اپنی مرضی سے اچھی جگہوں پر شادیاں کرادیں اس سلسلے میں اس نے پہلی مرتبہ شوہر سے کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے سے انکار کردیا لہٰذا سارے بچے خوش تھے اور ماں کے اس احسان کو مانتے بھی تھے بچے اب باپ کے اس روئیے کی وجہ سے نالاں بھی رہتے کہ انکا باپ نہ ہی اچھا شوہر اور نہ ہی اچھا باپ بن سکا ہے۔
آج سکینہ کی طبعیت صبح سے ہی بہت خراب تھی شام کو اس کا بیٹا راحیل ایا تو ماں کی حالت دیکھکر فورا اسے ہسپتال لیکر گیا وہ اندر سے اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ یہ بیماری اس کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی بیماری تو ایک بہانہ تھی وہ تو کب سے ختم ہو چکی تھی، وہ اپنے بچوں کے لئے ٹھنڈی چھاؤں تھی باپ کا پیارتو انہوں نے دیکھا نہ تھا اس لئے باپ کے ساتھ واجبی لگاؤ بھی ماں کی نصیحت اور تربیت کی وجہ سے تھا، شاہد جسے زندگی میں کبھی بیوی کی قدر نہ ہوئی اسکی موت کے چند دن بعد ہی اسے اسکی کمی کا احساس ہونے لگا وہ تو ہر وقت اسے برا بھلا کہتا کوستا رہتا تھا اپنوں غیروں کے سامنے اسے بے عزت کرکے اپنی مردانگی سمجھتا تھا۔
بیشک بچے اس کا خیال رکھتے تھے لیکن جس طریقے سے اس نے بچوں کے ساتھ زندگی گزاری تھی اس کی وجہ سے بچے اسکو کمپنی نہ دے پاتے اب اسے اپنی تنہائی کا شدت سے احساس ہونے لگا اور بیوی بچوں کے ساتھ اپنے گذشتہ رویئے کو یاد کرکے افسوس ہوتا وہ دوست اور یار جن کی صحبت میں مست رہتا تھا وہ بھی ساتھ چھوڑتے جارہے تھے اسطرح بیوی کے انتقال کے صرف چند ماہ بعد وہ بھی اس زندگی سے ہار بیٹھا شاید یہی اسکے لئے بہتر تھا۔