ہم چین کے حوالے سے اکثر یہ خبریں سنتے رہتے ہیں کہ یہاں معاشی سماجی ترقی میں پائیداری کی جستجو ایک کلیدی عنصر ہے اور جب آپ تحقیق کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ چین کے لیے ناممکن چیز بھی ممکن ہو جاتی ہے۔اس کی تازہ مثال ملک میں 18میگاواٹ گنجائش والی دنیا کی سب سے طاقتور آف شور ونڈ ٹربائن ہے۔30 ہزار سے زیادہ اجزاء پر مشتمل، ونڈ ٹربائن میں 126 میٹر طویل بلیڈ ہیں جو 53 ہزار مربع میٹر کے رقبے کا احاطہ کر سکتے ہیں، جو پانچ تا سات معیاری فٹ بال کے میدانوں کے برابر ہیں۔ اس کے روٹر ہب کے اندر کا قطر 160 میٹر تک لمبا ہو سکتا ہے۔ یہ ٹربائن 10 میٹر فی سیکنڈ سے زیادہ کی ہوا کی رفتار والے سمندری علاقوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ یہ 80 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چلنے والے سمندری طوفانوں سے بھی نمٹ سکتی ہے۔چینی حکام کے نزدیک ڈائریکٹ ڈرائیو ٹربائنز چلانے میں آسان ہے،اس کی دیکھ بھال بھی آسانی سے ممکن ہے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اس لیے اسے دور سمندر میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ایک سنگل ٹربائن یونٹ ایسے ماحول میں 18 میگاواٹ تک پہنچ سکتا ہے جہاں ہوا کی سالانہ اوسط رفتار 10 میٹر فی سیکنڈ ہو۔ یہ صرف ایک گردش سے 38 کلو واٹ گھنٹے (کے ڈبلیو ایچ) بجلی پیدا کرتی ہے اور سالانہ 72 ملین کے ڈبلیو ایچ صاف بجلی پیدا کر سکتی ہے، جو 40 ہزار گھروں کی سالانہ مانگ کو پورا کرتی ہے۔
اس ٹربائن سے سالانہ پیدا ہونے والی صاف توانائی 20 ہزار ٹن سے زیادہ معیاری کوئلے کی بچت کر سکتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو 55 ہزار ٹن تک کم کر سکتی ہے۔یہ توقع ہے کہ 18 میگاواٹ کی ونڈ ٹربائن سال کے اندر بڑے پیمانے پر تیار کی جائے گی اور چین کے جنوب مشرقی ساحلی علاقوں میں نصب کی جائے گی۔ٹربائن کے کلیدی اجزاء، جیسے بلیڈ، روٹر، جنریٹر، کنورٹر اور ٹرانسفارمر، گھریلو طور پر تیار کیے گئے ہیں۔
یہ بات قابل زکر ہے کہ آف شور ونڈ ٹربائنوں کو اعلیٰ معیار کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کی تحقیق اور ترقی کے اخراجات بھی قدرے زیادہ ہوتے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ بنائی گئی یہ ونڈ ٹربائن، طویل سروس لائف کے ساتھ، پچھلے ڈیزائن کے مقابلے میں پیچیدہ آف شور ماحول میں زیادہ مستحکم ہو سکتی ہے۔یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ تا حال، چین ونڈ ٹربائن آلات کا دنیا کا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے، جو عالمی پیداوار کا نصف ہے۔ ملک نے 6 سے 18 میگاواٹ تک ونڈ ٹربائن یونٹ کی صلاحیت کے ساتھ 20 سے زیادہ آف شور ونڈ پاور فارم قائم کیے ہیں۔
دوسری جانب یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ چین اپنے شفاف توانائی کے تجربات کا باقی دنیا کے ساتھ مسلسل تبادلہ کر رہا ہے اور اس کی سرفہرست مثال بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے شراکت دار ممالک ہیں۔چین کی جانب سے حالیہ برسوں میں ماحول دوست ترقی میں اپنے تجربے اور ٹیکنالوجی کے ساتھ، بی آر آئی پارٹنر ممالک میں کم کاربن تبدیلی کے لئے حمایت میں اضافہ کیا گیا ہے۔اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ بھی گرین انفراسٹرکچر، توانائی اور نقل و حمل میں تعاون مزید گہرا ہونے والا ہے۔ بی آر آئی نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران ویسے بھی ماحولیاتی تحفظ پر مبنی منصوبہ جات میں قابل ذکر نتائج دیکھے ہیں۔ ریلوے لائنوں اور ہائیڈرو، ونڈ اور سولر پاور پلانٹس کی ایک سیریز مکمل اور آپریشنل کردی گئی ہے، جس سے یقیناً ترقی پذیر ممالک کے سبز اور کم کاربن ترقی کے حصول کے خواب کو پورا کرنے میں مدد ملی ہے۔
چین نے 100 سے زائد ممالک اور خطوں کے ساتھ گرین انرجی تعاون کے منصوبوں پر عمل درآمد کیا ہے، اور بی آر آئی کے شراکت دار ممالک کے ساتھ سبز اور کم کاربن توانائی میں اس کی سرمایہ کاری ان ممالک میں روایتی توانائی کے منصوبوں میں اس کی سرمایہ کاری سے کہیں زیادہ ہے۔یوں چین گرین ترقی کے سفر میں تنہا محو سفر رہنے کی بجائے باقی دنیا کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے اور یہی چین کی اشتراکی ترقی کا حقیقی تصور ہے۔