کئی دن سے فلسطین پر قلم اٹھانے کا سوچا لیکن امید، خوف، غصہ، نشاط، تاسف میں اتنی جلدی رد و بدل آتا تھا کہ الفاظ ہی بدل جاتے تھے کبھی دل شہادتوں پر تکلیف کے خاتمے کا سکون محسوس کرتا تو کبھی بے دردی اور سفاکی کے مناظر اور شہداء کی بڑھتی ہوئی تعداد خون کھولا دیتی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ دعا کا انتخاب بھی مشکل تھا۔ ہر دن کوئی نہ کوئی تصویر ذہن میں آجاتی جو پھر نکل نہ پاتی۔ میں نے سلے ہوئے سر، بند سو جتی آنکھوں کے ساتھ اس بچی کو دیکھا۔ جو بڑے اطمینان سے خود کو محفوظ سمجھتے ہوئے تربوز کا ٹکڑا کھا رہی تھی۔ مجھے نہیں سمجھ آیا میں اس کے لیے کیا دعا مانگوں، تربوز میں رسول اللہﷺ کے دودھ کےپیالے جیسی برکت مانگوں جو اسکی بھوک مٹانے کے لیے کافی ہو جائے۔ یا اس کی بظاہر نا ممکن نظر آتی سکون کی زندگی مانگوں یادوبارہ پھر کسی تکلیف سے بچنے کے لیے شہادت مانگوں-
پھر میں نے ایک باپ کو اپنے بیٹے کے سرد وجود کو اسطرح سے لپٹتے دیکھا کہ اسکا پھٹتا ہوا دل مجھے نظر آرہا تھا۔ اور ایک بچی کو اپنی ماں کی نعش سے وہ باتیں کرتے ہوئے سنا کہ میرا دل پھٹنے لگا اور مجھے نہیں سمجھ آیا کہ ماں باپ کے سامنے اولاد کا مرجانا زیادہ مشکل ہے یا اولاد کے سامنے ماں باپ کا مر جانا۔
میدان میں بچوں کے بکھرے ہوئے اعضاء، صحت مند متحرک نو مولود کے برابر میں پڑی بے حس و حرکت ماں، کفن دفن کے انتظار میں لواحقین کے ہاتھوں میں اٹھانی نعشوں کی قطار، چھوٹے زخمی بچوں کی درد سے نکلی چیخیں، حادثے کے بعد زندہ بچ جانے والوں کے خوف سے لرزتے ہاتھ۔
میں نے سوچ سوچ کر رونے والوں کو بے اختیار آنسو بہاتے دیکھا۔ اپنی ہمت پر بہت ناز کرنے والوں کو فلسطین پر ہونے والے سفاک مظالم پر آنکھیں بند کرتے دیکھا۔ کسی نے پوچھا فلسطین جا کر کسی سے ملنے کا موقع ملے تو اُسے کیا کہہ کر آؤ گے؟
میرے پاس سب سے کمزور صنف فلسطینی ماؤں کو کہنے کے لیے بھی کچھ نہیں تھا جس بات کو برداشت کرنے کا آپ میں حوصلہ نہ ہو۔ وہ الفاظ آپ کسی اور کو نصیحت یا دلاسے کے لیے کیسے ادا کر سکتے ہیں ہاں لیکن کاش اللہ (کچھ عرصے کے لیے دنیا سنبھالنے والے) حیوانوں سے قوت اور اہلیت کے ساتھ ملنے کا موقع دے۔ اسکی شدید خواہش ہے۔